سوات کی خبریں

دہشتگردی کی باعث سب سے زیادہ بچے متاثر ہوئے،ڈائریکٹر پرورش آرگنائزیشن

سوات(زما سوات ڈاٹ کام ، تازہ ترین۔ 26 جنوری 2018ء) سوات میں دہشتگردی کی لہر سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہوئے پرتشدد واقعات کے سبب انہیں کافی سارے نفسیاتی مسائل پیش آئے بہت سے بچے یتیم ہوگئے ان بے آسرا بچوں کی تعلیم وتربیت اور کفالت کیلئے دیگر اقدامات کے علاوہ پرورش آرگنائزیشن کے نام سے ادارہ بھی قائم کیا گیا شروع میں یہاں 7 یتیم بچے داخل ہوئے اور اب یہاں 280 بچے زیر کفالت ہیں پرورش ہوم میں ان کی بہترین تعلیم وتربیت جاری ہے جو اپنی زبردست صلاحیتوں کی بدولت مستقبل میں ملک وقوم کا نام روشن کرینگے ان خیالات کا اظہار پرورش آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر نعیم اللہ نے پختونخوا ریڈیو کے پروگرام ’’دسوات رنگونہ‘‘ میں بحیثیت مہمان اظہار خیال کرتے ہوئے کیا انہوں نے بتایا کہ شروع میں بہت سے مسائل تھے لیکن آج ایک ہی چاردیواری کے اندر ان کی بہترین کفالت کے علاوہ پڑھائی اور غیر نصابی سرگرمیاں جاری ہیں ہم ہر سال 25 نئے یتیم بچوں کو یہاں داخل کرتے ہیں ان کو مہینے میں ایک دفعہ رشتہ داروں سے ملنے کی اجازت ہوتی ہے انہیں بیرونی سٹڈی ٹورز بھی کرائے جاتے ہیں تاکہ وہ سیاحتی اور تاریخی مقامات دیکھ سکیں اور لطف اندوز ہونے کے علاوہ ان کا مشاہدہ بڑھے ادارے کی فنڈنگ سے متعلق انہوں نے کہا کہ سوات سمیت ملک بھر سے مخیر شہری ان یتیم بچوں کی کفالت اور تعلیم کیلئے خیرات و صدقات بھیجتے ہیں نعیم اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان ایسوسی ایشن دوبئی بھی ادارے کے ساتھ کافی مالی تعاؤن کرتا ہے انکے تعاؤن سے حال ہی میں چار باغ کے قریب 50 کنال اراضی خریدی گئی ہے جس پر جلد عالیشان عمارت تعمیر کی جائے گی اس میں مالک اراضی نے مسجد کیلئے مفت پلاٹ بھی عطیہ کیا ہے اس پرورش کمپلیکس میں بچوں اور بچیوں کے الگ ہاسٹلز، بڑا ہال، پلے گراؤنڈ اور دیگر سہولیات میسر ہونگی ان کا دعویٰ تھا کہ پرورش کے بچے تمام بچوں سے زیادہ باصلاحیت ہیں وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل کود میں بھی بھرپور حصہ لیتے ہیں اور اسی وجہ سے ادارے کے پاس کھیلوں باالخصوص فٹ بال کے بہترین پلیئرز موجود ہیں ان تمام باصلاحیت بچوں کیلئے ہم مختلف ٹورنامنٹ اور پروگرامز کراتے ہیں تاکہ ان کے ٹیلنٹ کو اجاگر کیا جائے اس موقع پر ریجنل انفارمیشن آفیسر غلام حسین غازی نے ادارے کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے ایسے منفرد فلاحی اداروں کی قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھر پور مالی سرپرستی کی اپیل کی اور واضح کیا کہ یتیموں کی پرورش فلاحی ریاست کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے مگر ہمارے پسماندہ صوبے اور ترقی پذیر ملک کے محدود وسائل کے پیش نظر پرورش جیسے ادارے ریاست کی مدد کررہے ہیں جس پر ہم انکے مشکور ہیں اور حکومتی و عوامی دونوں سطح پر انکی بھرپور سرپرستی ہونی چاہیئے۔

Related Articles

Loading...
Back to top button