بلاگ

رسپ بیری (نعیم خان)

رسپ بیری | تحریر : نعیم خان

رسپ بیری شوخ سرخ رنگ کا ایک خوبصورت، خوش نما اور خوش ذائقہ پھل ہے جو کہ سوات سمیت پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور کہیں کہیں میدانی علاقوں میں جہاں آب و ہوا قدرے یخ ہوتی ہے وہاں اس کا پودا دریا ، ندی نالوں اور ایسی ہی دیگر ٹھنڈی جگہوں پر قدرتی طور پر اُگتا ہے۔

رسپ بیری کا تعلق گلاب کے خاندان سے ہے، اس کا پودا جھاڑی نما ہوتا ہے ، پتے ایک ٹہنی پر تین سے پانچ تک ہوتے ہیں۔ تنے پر کانٹے ہوتے ہیں اور اس کی ٹہنیاں کافی لمبی ہوتی ہیں۔ اس کے پھول ہلکے گلابی یا سفید رنگ کے ہوتے ہیں جو کہ گچھوں کی شکل میں اُگتے ہیں ۔ اس کے پھل مختلف رنگوں میں ہوتے ہیں، ان میں زیادہ تر گہرے جامنی رنگ، سرخ اور ایک اور قسم زردپیلے یا نارنجی گولڈن رنگ کا ہوتاہے۔اس کے پودے پر پھول اپریل کے وسط سے نمودار ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور جون کے آخر سے پھل پکنے لگتاہے جو جولائی کے آخرتک دستیاب ہوتاہے۔ اس کا پھل توت کے پھل کی طرح دانے دار ہوتاہے، جنگلی ؍قدرتی طور پر اُگے رسپ بیری کے پھل کا سائز چھوٹا ہوتا ہے تقریباً توت کے پھل جتنا ہی۔انگریزی میں اس کورسپ بیریRaspberrieرسپ بیری کہا جاتا ہے۔ سوات میں اس کے گہرے جامنی اور سرخ رنگ کے پھل کو ـ”بیگونئی یا باگانئی” اور زردپیلے گولڈن رنگ کے پھل کو ” گورج “کہتے ہیں جبکہ دیگر علاقوں میں اس کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔یہ یاد رہے کہ رسپ بیری اور بلیک بیری دو الگ الگ پھل ہیں، یہ شکل و صورت اور کسی قدر ذائقے میں بھی “بلیک بیری” کی طرح ہی ہوتا ہے۔ یہ پودے ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، ان کے پودے اور پھل ایک دوسرے سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔ بلیک بیری کو سوات کے علاقے میں “کروڑے” کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ بلیک بیری / کروڑے کا پھل تھوڑا سے بیضوی نما اور گہرے سیاہی مائل جامنی رنگ کے ہوتے ہیں جبکہ رسپ بیری شکل میں تھوڑی سی گول اور جہاں اس کی ڈنڈی لگی ہوتی ہے وہاں سے اندر کو دھنسی ہوئی ہوتی ہے اور رنگ بھی اتنا گہرا نہیں ہوتا۔

رسپ بیری یورپ ، کینیڈا ، چین، جاپان ، کوریا،روس ، وسط ایشائی ممالک اورہندوستان و امریکہ کے سرد علاقوں میں پائے جاتے ہیں اوران ممالک میں رسپ بیری کی باقاعدہ تجارتی بنیادوں پر کاشت بھی ہوتی ہے اور اس کے کئی ہائبرڈ اقسام کو بھی متعارف کروایا گیا ہے۔رسپ بیری کے ہائبرڈ اقسام کے پودے اب پاکستان میں بھی کسی بھی اچھی نرسری سے حاصل کئے جاتے ہیں جو خاص کر میدانی علاقوں کے لئے متعارف کروائے گئے ہیں۔ اسلام آباد میں پرانے پشاورموڑ کی نرسریزی میں یہ پودا دستیاب ہوتا ہے۔ جبکہ دیگر بڑے شہروں میں بھی باہرممالک سے درآمد کنندگان کے پاس اس کے پودے دستیاب ہوسکتے ہیں۔

ہائبرڈ اقسام میں اس کے پھل کا سائز بڑا، ذائقہ خوشگوار ترشی نما میٹھا اور رنگ شفاف سرخ ہوتا ہے۔ پاکستان میں کئی بڑے سٹورز میں باہرممالک خاص کر یورپ سے درآمد کئی ہوئی رسپ بیری دستیاب ہوتی ہے لیکن قیمت میں انتہائی مہنگی ہوتی ہیں، تقریباً بیس سے پچیس دانوں کی قیمت آٹھ سو سے نوسو روپے کے درمیان ہوتی ہے۔

خیبر پختونخوا اور اسلام آباد اور دیگر میدانی علاقوں میں کافی لوگوں نے اپنے گھروں میں اس پودے کو کامیابی سے اُگایا ہے جن پر پھل بھی خوبصورت اور صحت مند لگ رہے ہیں، لیکن مطلوبہ آب و ہوا نہ ہونے کی وجہ سے پھل اکثر ترش ہی ہوتا ہے، جبکہ شمالی علاقہ جات اور ٹھنڈے علاقوں میں اس کا پھل خوش ذائقہ میٹھا ہوتا ہے۔ اس کے پودے کو کہیں بھی سایہ دار جگہ پر کاشت کیا جاسکتا ہے جہاں میدانی علاقوں کی تیز دھوپ اس کو براہراست متاثر نہ کرسکے۔ کسی بڑے درخت کے نیچے سایہ دار جگہ اس کیلئے نہایت موزوں ہوتی ہے۔ رسپ بیری کے پودے کو نہایت آسانی سے آپ کسی بھی بڑے کنٹینر، گملے یاکیاری میں اُگا سکتے ہیں۔ نرسری سے صحت مند پودا منتخب کریں اور مطلوبہ جگہ پر اس کو کاشت کریں۔ عام طور پر یہ ندی نالوں اور کھیتوں میں پانی کی نالیوں کے ساتھ ساتھ پگڈنڈیوں پر جھاڑیوں کی شکل میں بھاڑ بنائے اُگی ہوتی ہیں۔

دنیا کے بیشتر ممالک میں اس پھل کو تجاری بنیادوں پر کاشت کیا جاتا ہے ، جس کو بڑی کامیابی اور بڑی مقدار میں دنیا بھر میں برآمد بھی کیا جاتا ہے۔ دنیا کے کئی تجارتی مارکیٹس میں اس پھل کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ یہ پھل کئی اقسام کے کھانوں، مٹھائیوں ، سویٹ ڈشز، بیکری مصنوعات سمیت عام خوراک کے طور پر زیر استعمال لایا جارتا ہے۔ اس کے کئی طبی خواص بھی ہیں جن کی وجہ سے ادویات میں بھی ان کو استعمال کیا جاتا ہے۔ کئی دیہائیوں تک لوگ دیگر خطوں کے پھل اور سبزیوں سے ناواقف تھے مگر جب سے معلومات کی فراہمی اور دستیابی عام آدمی کے دسترس میں آگئی ہیں تو دنیا کے ایک خطے کے پھل اور سبزیاں دوسرے خطے کے لوگوں کی دہلیز پر پہنچنا شروع ہوگئے اور یہی وجہ ہے کہ کسی ایک ملک کے علاقائی پھل، سبزی، پھول،پودوں اور طبی خواص کے جڑی بوٹیوں کی مانگ دوسرے علاقوں میں بڑھ گئی ہے۔ ہم ایک زرعی ملک ہیں مگر بدقسمتی سے زراعت کی ترقی کو وہ رفتار حاصل نہیں جو کہ عہد حاظر کی ضرورت ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں محنتی طلباء و طالبات مختلف تحقیق و تجربات کرکے کامیابی حاصل توکررہے ہیں مگر اُن کی محنت بہت کم ہی عام کاشتکاریاکسان تک پہنچتی ہے۔

 سوات، دیر،چترال، ایبٹ آباد،مانسہرہ، شانگلہ، گلگت بلتستان اس پھل کیلئے نہایت موزوں علاقے ہیں جہاں یہ پودہ قدرتی طور پر بھی اُگتاہے 

سوات، دیر،چترال، ایبٹ آباد،مانسہرہ، شانگلہ، گلگت بلتستان رسپ بیری کیلئے نہایت موزوں علاقے ہیں جہاں یہ پودا قدرتی طور پر بھی اُگتاہے 

رسپ بیری اور اس جیسے فائدہ مند پھل ہمارے ملک میں جنگلی دستیاب ہیں لیکن کسی بھی حکومت نے اور ہمارے زراعت سے وابستہ محکموں نے ان کی تجارتی بنیادوں پر کاشت کی طرف توجہ نہیں دی۔ اگر رسپ بیری اور اس جیسے دیگر پھل،پھول،سبزیوں اور جڑی بوٹیوں (جن کی زیادہ تر اقسام ہمارے علاقوں میں قدرتی طور پر اُگتی ہیں)کی اعلیٰ اور ہائبرڈ اقسام کو ملک میں متعارف کروایا جائے ، کاشتکاروں کو ان کی کاشت ،حفاظت، پیکنگ اورمارکیٹنگ کی عملی تربیت دی جائے تو کوئی شک نہیں کہ ہمارے کسان اس کی کاشت تجارتی بنیادوں پر شروع کریں گے۔ رسپ بیری اور دیگر پھلوں کی جدید طریقوں سے کاشت کاری سے ہمارے کاشتکار نہایت معقول منافع کما سکتے ہیں جن کی مانگ دیگر ممالک میں بہت زیادہ ہے اور اس سے پاکستان کی برآمدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوسکتا ہے۔ سوات، دیر،چترال، ایبٹ آباد،مانسہرہ، شانگلہ، گلگت بلتستان اس پھل کیلئے نہایت موزوں علاقے ہیں جہاں یہ پودہ قدرتی طور پر بھی اُگتاہے۔ اگر ان کی قلمکاری کی جائے یا باہر کے ممالک سے ہائبرڈ اقسام کے پودے درآمد کرکے ان علاقوں میں کاشت کئے جائیں تو کوئی شک نہیں کہ اس سے نہایت اعلیٰ معیار کا پھل حاصل کیا جاسکے گا۔

نوٹ : زماسوات ڈاٹ کام کا مصنف کے متن سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Loading...
Back to top button