Featuresکالم/ مضامین

سوات میں بد امنی اور قدرتی آفات کے بعد لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار

تحریر: سعید الرحمان

خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقام سوات میں بدترین زلزلے، پھر طالبانائزیشن اور اُس کے بعد سیلاب نے مقامی لوگوں کو مختلف ذہنی بیماریوں میں مبتلا کرکے رکھ دیا ہے۔ ماہرینِ نفسیات اس حوالے سے تشویش کا شکار ہیں جب کہ مقامی لوگ مختلف نفسیاتی مسائل کے شکار اپنے پیاروں کی وجہ سے ذہنی خلجان میں مبتلا ہیں۔

کون سے لوگ نفسیاتیمسائل کا زیادہ شکار ہیں؟

حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد امن کمیٹی کے ممبران اور علاقے کے خان خوانین عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ نفسیاتی مسائل کے شکار ہیں۔ بیشتر خوانین نے اپنا رکھا ہوا اسلحہ واپس نکال لیا ہے اور وہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے لیے خود کو مکمل طور پر تیار کیے ہوئے ہیں۔

کس واقعے نے اہلِ سوات کو زیادہ تشویش میں ڈالا ہے؟

تحصیل کبل کے علاقے برہ بانڈی میں تیرہ ستمبر کو ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں امن کمیٹی کے سابقہ رکن ادریس خان سمیت 8افراد جاں بحق ہوئے جس میں دو پولیس اہلکار بھی شامل تھے ۔اس واقعے کے بعد علاقے میں خوف وہراس میں اضافہ ہوگیا ۔ادریس خان کے کزن برکت خان نے بتایا کہ ادریس خان ایک بہادر شخص تھے۔ ان کو بار بار دھمکی آمیر کالیں موصول ہوتی تھیں۔ ’’ہم انھیں بار بار منع کر رہے تھے کہ اپنی نقل و حمل محدود رکھیں مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟ ہمارا پورا خاندان اب تشویش میں مبتلا ہے۔ اب جب میں گھر سے نکلتا ہوں، تو والد صاحب غصہ ہوتے ہیں کہ گھر سے نہ نکلو!‘‘

برکت خان کہتے ہیں کہ ہم اس واقعے کے بعد ذہنی دباو میں مبتلا ہیں، مگر اپنا گھر بار چھوڑیں گے اور نہ میدان سے پیچھے ہٹیں گے۔

نوجوانوں پر حالیہ دہشت گردی کی لہر کا کیا اثر ہے؟

ڈگری کالج کے فورتھ ائیر کے طالب علم عمران کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ حالیہ واقعات کے بعد مَیں اور ہمارے خاندان کے دیگر افراد ذہنی دباو کا شکار ہیں ۔’’پہلے جب ہم کالج جاتے تھے، تو صبح کالج کے لیے بلا خوف وخطر نکل جایا کرتے تھے، مگر اب ایک انجانا سا خوف سائے کی طرح چمٹا رہتا ہے۔دوہزار سات میں میرے والد گھر سے نکل کر مینگورہ شہر کے نشاط چوک میں خود کش دھماکے میں شہید ہوئے۔وہ غم اب تک سائے کی طرح ساتھ رہتا ہے۔اب جب دوبارہ امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے پیشِ نظر تھوڑی دیر ہوجاتی ہے، تو میری ماں بھی فکر مند ہوجاتی ہے۔‘‘

عمران کے بقول، اب مطالعے میں دھیان رہتا ہے، نہ دوستوں کے ساتھ سیر کا مزا ہی آتاہے۔

دہشت گردی کی حالیہ لہر کی طالبات پر کیا اثرات ہیں؟

سوات یونی ورسٹی وومن کیمپس کے سائیکالوجی ڈیپارمنٹ کی لیکچرار مس تمنا (فرضی نام) نے بتایا کہ حالیہ دہشت گردی اور سیلاب کی وجہ سے طالبات سہمی سہمی سی دکھائی دیتی ہیں۔ ’’جب مَیں کلاس میں لکچر دیتی ہوں، تو طالبات کے چہرے پر پریشانی کے آثارنمایاں دکھائی دیتے ہیں۔حاضری بھی اب کم ہی رہتی ہے۔ اس سے پہلے جب ہم سوشل میڈیا پر خبریں دیکھتے تھے، تو اسے ایک طرح سے پروپیگنڈا سمجھتے تھے کہ سوات کے ٹورازم کو نقصان پہنچانے کے لیے یہ سب کیا جارہا ہے۔ وادی میں پولیس اہلکار ہیں، فورسز اہلکار ہیں، کیسے مٹھی بھر عناصر سوات کے امن کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

مس تمنا کہتی ہیں کہ جیسے ہی سوشل میڈیا پر زخمی ڈی ایس پی اور دیگر سیکورٹی اہلکاروں کی ویڈیو وائرل ہوتے ہوئی دیکھی، تو گویا ہماری جان نکل گئی۔ ’’اب جب ہم طالبات کو حوصلہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ خیر کرے گا، تو جواب ملتا ہے کہ اگر ایک ڈی ایس پی اور سیکورٹی اہلکار محفوظ نہیں، تو عام عوام کس کھیت کی مولی ہیں۔ حالیہ فائرنگ اور ریموٹ بم دھماکے نے رہی سہی کسر بھی پورا کردی۔‘‘

  ماہرِ نفسیات کیا کہتے ہیں؟

سیدو شریف ٹیچنگ اسپتال میں ماہر نفسیات اسسٹنٹ پروفیسر نظام الدین اس صورتِ حال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ لوگ سخت بے چینی، خوف اور اضطراب کا شکار ہیں۔ ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا پر نشر ہونے والی ایک چھوٹی سی خبر لوگوں میں بڑی اضطرابی کیفیت پیدا کر نے کی طاقت رکھتی ہے ۔’’حالیہ سیلاب اور اس کے بعد اٹھنے والی دہشت گردی کی لہر کی وجہ سے نفسیاتی مسائل میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ پہلے ہم اُو پی ڈی میں روزانہ کی بنیاد پر 80 تا 100 مریضوں کا معاینہ کرتے تھے، جب کہ حالیہ واقعات کے بعد پچھلے تین ہفتوں سے ڈپریشن اور انزایٹی کے مریضوں کی تعداد ایک سو پچاس سے لے کر ایک سو ساٹھ تک پہنچ گئی ہے، جس میں زیادہ تر خواتین اور طلبہ و طالبات شامل ہیں۔‘‘

نظام الدین آگے کہتے ہیں کہ آنے والے مریضوں کو ڈر، خوف، بے چینی، ڈپریشن اور انزائٹی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔’’حالیہ سیلاب کی وجہ سے بھی لوگوں کے نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر خواب آور ادویہ کا تقاضا کرتے ہیں ۔ کیوں کہ بیش تر خوف کی وجہ سے سو نہیں پاتے اور یوں ذہنی اذیت کا شکار رہتے ہیں۔‘‘

فوری طور پر کیا کرنا چاہیے؟

ماہرِ نفسیات اسسٹنٹ پروفیسر نظام الدین اس حوالے سے کہتے ہیں کہ نفسیاتی امراض کے شکار افراد کو گھر والوں کے جذباتی سہارے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس وقت پریشانی کا یہ حال ہے کہ گھروں کے اندر بھی پریشانی اور ڈپریشن کا ماحول ہے۔ہر کوئی اپنے سائے سے ڈر رہا ہے۔ ’’اندازہ لگائیں کہ سوات بائی پاس پر درجنوں ریسٹورنٹ اور ہوٹل موجود ہیں جہاں پر رات کے ایک بجے تک چہل پہل رہتی تھی۔ مختلف ریسٹورنٹوں میں ملکی و غیر ملکی سیاحوں کا رش ہوا کرتا تھا، مگر اب بدامنی کی لہر نے سب کچھ ویران کردیا ہے۔اب رات دس بجے بھی نکل کر دیکھیں، توغیر ملکی یا ملکی سیاح تو دور کی بات مقامی لوگ بھی دیکھنے کو نہیں ملتے۔‘‘

دہشت گردی کی تازہ لہر کی وجہ سے کاروبار پر کیا اثرات پڑے ہیں؟

ایک مقامی ریسٹورنٹ کے مالک ضیاء اللہ کا کہنا تھا کہ ان کا عام طور پر ایک لاکھ سے لے کر ڈھائی لاکھ تک کا روزانہ کاروبار ہوا کرتا تھا۔ پہلے سیلاب نے تباہی مچائی۔ ابھی سانس بھی نہیں لے پائے تھے کہ دہشت گردی کی لہر اٹھ گئی۔’’امن و امان کی بگڑتی صورتحال کی وجہ سے اب پچھلے ایک ہفتے میں تیس ہزار کا سیل نہیں ہوا، جس کی وجہ سے ذہنی دباو کا شکار ہوں۔ بلڈنگ کا کرایہ ایک طرف، سٹاف کی تنخواہیں، بچوں کی تعلیم اور گھر کا خرچہ کہاں سے لاؤں گا؟ دن بھر اس فکر میں جی ہلکان ہوجاتا ہے۔‘‘

امن و امان کی بحالی بارے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟

رواں ماہ کی چوبیس تاریخ کو پولیس لائن مینگورہ میں پولیس کے زیرِ اہتمام جرگہ کیا گیا جس میں عمائدینِ علاقہ، سیاسی اور سماجی مشران نے شرکت کی ۔ اس موقع پر ریجنل پولیس آفیسر ذیشان اصغر نے جرگے کو بتایاکہ خیبر پختونخوا حکومت کی پالیسی واضح ہے۔ اگر ہمارے گھر میں کوئی آکر ہمیں گولی مارے گا، تو ہم ان کو پھولو ں کے ہار نہیں پہنائیں گے، جو بھی بندوق اٹھائے گا اور آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی کرے گا، اس کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔

دوسری طرف امن وامان کے قیام کے لیے تین بریگیڈ فوج سوات پہنچ گئی ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ پولیس اور فوج مشترکہ طور پر انٹیلی جنس بیس آپریشن کرکے علاقے کا امن چند ہفتوں میں بحال کریں گے۔

Related Articles

Loading...
Back to top button