شرب گل کے بارے میں کچھ اور
فتح پور بَرسوات سے بہادر خان مجھ سے ملنے آیا اور آتے ہی کہنے لگا کہ پرنس امیر زیب سے ملنا ہے، لیکن اُن کے سامنے میرا تعارف نہیں کرنا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب وہ روبہ صحت تھے۔ گو کہ گلے میں تکلیف ہونے کی وجہ سے وہ بہت دھیمی آواز سے باتیں کرتے تھے، اس لیے اُنہیں سننے کے لیے اُن کے قریب بیٹھنا پڑتا تھا۔ ہم اُن سے مئی 1995ء کو ملے تھے۔ میں نے اُنہیں اپنی کتاب ’’لٹون د پوھے‘‘ عنایت کی۔ پختونخوا لفظ پر اُن کی نظر پڑی، تو مجھ سے کہنے لگے کہ یہ پختونخوا کیوں لکھا ہے؟ اس کی جگہ پختونستان لکھنا چاہئے تھا کہ وہ بامعنی نام ہے۔ پھر کہنے لگے کہ ادغام کے بعد جب ولی خان سوات آئے، تو والئی سوات سے ملنے کے لیے اُن کے محل میں جانے لگے۔ اُس وقت افضل خان بھی اُن کے ساتھ تھے۔ افضل خان نے ولی خان سے کہا کہ خان یہ آپ کیا کررہے ہیں؟ ولی خان نے کہا کہ وہی جو میں پہلے سے کرتا آیا ہوں۔ ریاستی دور میں ولی خان جب بھی سوات آتے تھے، تو ہر دفعہ والئی سوات سے ملنے کے لیے جایا کرتے تھے۔ اُس وقت والئی سوات بر سر اقتدار تھے اور ادغام کے بعد ولی خان نے اُن سے ملاقات کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ پرنس امیر زیب کہہ رہے تھے کہ ولی خان سے ہمارا خاندانی تعلق تھا۔ اور ہم تعلق کو نبھاتے چلے آرہے ہیں۔ باتوں ہی باتوں میں موقعہ کی مناسبت سے بہادر خان نے پرنس امیر زیب سے شرب گل کی تصویر کے بارے میں پوچھا کہ اُن کی تصویر تو آپ کے پاس ہوگی؟ اس پر پرنس کہنے لگے کہ کبھی کبھی پروجیکٹر پر ہم شرب گل کی ڈاکومنٹری فلم دیکھ لیا کرتے تھے۔ تصویر تو ہمارے پاس نہیں ہے۔ البتہ فلم کا ’’ریل‘‘ مختلف ٹکڑوں میں پڑا ہوا ہے۔ وقت ہی نہیں ملتا کہ اُسے یکجا کیا جائے۔ بہادر خان نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ اُن کے بیٹوں کے پاس شرب گل کی تصویر تھی، لیکن بعد میں اُن سے ضائع ہوگئی۔ البتہ فتح پور میں پُتلی کے پاس ان کی دکان میں بھی میں نے شرب گل کی تصویر دیکھی ہے جو منھ ٹیڑھا کرکے گویا کسی مسخرے کی طرح لی گئی تھی، لیکن وہ بھی نہیں مل رہی۔ یعنی اُن سے بھی ضائع ہوگئی ہے۔ یاسر خان آف رونیال سوات جو عرصۂ دراز سے لندن میں مقیم ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ لندن میں شرب گل پر بنی ہوئی ڈاکومنٹری فلم انہوں نے لندن ہی میں دیکھی ہے لیکن ’’آرکائز‘‘ والے وہ فلم یا شرب گل کی تصویر کسی کو نہیں دیتے۔ ایک دفعہ بہادر خان نے مجھے کہا تھا کہ شرب گل کاایک چھوٹا بھائی تھا جو مکانباغ مینگورہ میں رہتا تھا، دونوں کی شکل میں معمولی سا فرق تھا۔ قارئین، راقم کو اس وقت شرب گل کا چہرہ تو یاد نہیں۔ البتہ اس کے چھوٹے بھائی کا چہرہ یاد ہے جسے لوگ ’’مشرفے‘‘ کہتے تھے۔ مشرفے مینگورہ بازار میں نسوار بیچا کرتا تھا۔ اُس کو میں نے دیکھا تھا۔ وہ بھی میرے بچپن کے دن تھے۔ اُن دنوں جب نشاط چوک مینگورہ میں مشرفے نسوار بیچتے ہوئے آواز لگاتا کہ’’ابھی تھوڑی دیر پہلے ایک آدمی میرا نسوار کھا کر گر پڑا ہے۔‘‘ اس سے مشرفے کا مطلب ہوتا کہ نسوار کتنا تیز ہے۔ اُن دنوں کم عمری کی وجہ سے مجھ میں اچھے برے کی تمیز تو تھی نہیں۔ میں نے مشرفے سے چٹکی بھر (جسے پشتو میں گزار کہتے ہیں) نسوار لیا۔ نشاط چوک سے ملک سرائے تک ابھی چند قدم ہی اُٹھائے تھے کہ سرد پسینے سے میرا جسم شرابور ہوگیا، سر چکرانے لگا، منھ سے نسوار تھوک ڈالا۔ جلدی جلدی پانی سے منھ دھویا۔ سر پر پانی ڈالنے لگا۔ اُس چٹکی بھر نسوار سے اتنا ہوا کہ میں نے زندگی بھر کبھی نسوار نہیں کھایا بلکہ اب تو نسوار کی بو سے بھی مجھے نفرت ہے۔ وہ غلطی شائد میرے لئے کافی تھی۔