خیبر پختونخواہ

مردان سے تعلق رکھنے والی با ہمت رعنا گل جس نے اپنی معزوری کو کمزوری بننے نہیں دیا۔

تحریر : سدرہ آیان

مردان سے تعلق رکھنے والی رعنا گل آج سے بارہ سال پہلے یعنی 2023 میں ایک حادثے میں زخمی ہونے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے محروم ہو گئی تھی ۔

جسکے بعد دوستوں اور رشتہ داروں کو لگنے لگا کہ اسکی باقی کی زندگی چارپائی پر لیٹ کے گزرے گی اور ایک بوجھ بن کر رہ جائے گی جس پر بہت سے لوگوں نے ان سے کنارا کشی اختیار کی اور اس مشکل وقت میں رعنا گل اکیلی رہ گئی ۔

رعنا گل کا کہنا ہے کہ اگر پیدائشی معذور ہوتی تو اتنی تکلیف شائد نہ ہوتی لیکن میں نے ایک عمر صحت مند اور چلتے پھرتے زندگی گزاری لیکن اچانک چلنے پھرنے سے محروم ہونے کی وجہ سے میرا دل درد سے پھٹا جا رہا تھا ۔

میں لوگو کی نظریں پڑھ سکتی تھی ہر ایک کی نظریں یہ دعویٰ کر رہی تھی کہ بس اسکی زندگی تو ختم ہو گئی ، اور والدین پر بوجھ دگنا ہوگیا ، لیکن میں نے دل میں ٹھان لیا کہ میرے والدین کو جتنا درد ملنا تھا مل گیا میں اور انھیں دکھی نہیں کرونگی، میں نے محنت شروع کی اور ایک اکیڈمی جاتی رہی جہاں میں نے جیولری بنانے کا کام سیکھا ، دستکاری اور کپڑے سلوانے کا کام سیکھا ۔

رعنا گل کے مطابق ہر لمحہ انھیں اس بات کا احساس ہوتا تھا کہ اب اسکے لیے چیزیں دگنی مشکل ہوگئی ہے لیکن انھیں ایک چیز کرنی تھی اور وہ یہ تھی کہ اس نے ہمت نہیں ہارنی !

پھر انھیں ایک تنظیم کے کے بارے میں پتہ چلا کہ کی سجاد احمد صاحب کی تنظیم تھی ۔ جہاں لوگوں کو مفت ہنر سکھائے جاتے ہیں ۔ رعنا گل نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی اس تنظیم کا حصہ بنے گی اور اپنے جیسی دوسری خواتین کی خدمت کرینگی ۔

رعنا گل اس “خود مختار تنظیم ” کے وکیشنل سینٹر میں بحیثیت ٹیچر اپنی کارکردگی سر انجام دے رہی ہے انھوں نے اسکے بعد کبھی کبھی اپنی معذوری کو اپنی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بننے نہیں دیا اور خود اپنا بوجھ اٹھانے کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی کام سکھاتی ہے تاکہ وہ بھی اپنے پیروں پہ کھڑے ہو سکیں ۔

رعنا گل کا کہنا ہے کہ اس وکیشنل سینٹر میں یہ مختلف کورسز سکھاتی ہیں جن میں کپڑے سلوانا ،کپڑوں پہ کڑھائی ، جیولری بنانا اور میک کرنا سکھاتی ہیں ۔

ان کورسز کا دورانیہ چھ مہینے ہوتے ہیں ۔

انھوں نے کہا کہ معاشرے میں ہمیں اس وجہ سے حقارت سے دیکھا جاتا ہے کہ ہم ہم معذوری کے شکار افراد کام کاج کرنے کے قابل نہیں ہوتے اور پیسے نہیں کماتے ۔ ہم چاہتے تھے کہ ہر کوئی یہاں آکر سیکھے اور کام کرنا شروع کریں اس لیے سجاد احمد نے یہ تنظیم شروع کیا اور ہم نے انکا ساتھ دیا ۔

مردان سے تعلق رکھنے والے سجاد احمد “خود مختار تنظیم برائے خصوصی افراد” کے چیئرمین ہے۔

اگر چہ سجاد احمد خود معذوری کے شکار ہے لیکن انھوں نے اپنی معذوری کو کبھی اپنے مشن کے راہ میں رکاوٹ بننے نہیں دیا ۔

مردان یونیورسٹی کالونی میں انکا ایک وکیشنل سینٹر ہے

جن میں کل پچیس طلباء و طالبات ہنر سیکھتے ہیں جن میں طلباء کی تعداد 15 اور طالبات کی تعداد 10 ہیں ۔

ان پچیس طلباء و طالبات کے لیے دو ٹیچرز رکھے ہوئے ہیں جو کہ دونوں ہی معزوری کے شکار ہیں ۔

سجاد احمد کا کہنا ہے کہ پچھلے تیرا سال سے ہمارے کام کرنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ مردان کے باقی خصوصی افراد کے لیے آسانیاں پیدا کریں انھیں زندگی میں آگے آنے کے لیے انکی راہ ہموار کریں ۔

پچھلے سال انھوں نے ووکیشنل ٹریننگ سنٹر شروع کیا جس کا مقصد خصوصی افراد کو ہنر سیکھنے اور کام کرنے کا موقع دینا تھا لیکن اس سنٹر میں ہر کوئی داخلہ لے سکتا ہے نہ عمر کی کوئی حدود رکھی گئی ہے نہ مذہب اور نہ ہی جینڈر کی ۔

اس وکیشنل سینٹر میں سٹوڈنٹس کو سلائی کڑھائی ، جیولری کورسز ،

بیوٹیشن کورسز اور بیگز بنانا سکھایا جاتا ہے ۔

*فری وہیل چیئر ریپئرنگ*

خود مختار تنظیم کے چیئرمین سجاد احمد کا کہنا ہے کہ اس وکیشنل سینٹر میں انکا ایک ورک شاپ بھی ہے جس کو بنانے کا خیال انھیں 2006 میں آیا ،سجاد احمد کے مطابق پہلے وہیل چیئرز کو ٹھیک کروانے کے لیے اسے لاہور یا کراچی بھیجا جاتا تھا جو کہ کافی پریشانی اور مشکل کا باعث بنتا ، اسلیے انھوں نے یہ ورک شاپ بنایا جس میں وہیل چیئرز کے سارے پارٹس اور ٹولز موجود ہیں اور یہاں وہیل چیئرز کی ہر قسم کی مرمت بلکل فری کی جاتی ہے ، انکے پاس مردان، پشاور ،نوشہرہ اور خیبر پختونخوا کے دوسرے کئی ضلعوں سے وہیل چیئرز مرمت کرنے کے لیے لوگ لاتے ہے ۔

جسکی مرمت کے لیے انکے پاس اپنے لوگ موجود ہے جو کہ خود بھی افراد باہم معزوری ہیں ۔

*فوڈ پیکجز*

اگر چہ خود مختار تنظیم تمام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتا ہے لیکن انکے مطابق نارمل افراد کے مقابلے میں یہ معذوری کے شکار افراد کو خاص توجہ دیتے ہیں کیونکہ اس مہنگائی کے دور میں ایک نارمل انسان کی نسبت معذور افراد کے لیے جینا زیادہ دو بھر ہوگیا ہے ، اس دور پیکج پروگرام کا مقصد بجٹ کے مطابق تمام مستحقین کی مدد کی جاتی ہے ۔

یہاں کے طلباء و طالبات سجاد احمد اور رعنا گل کے بیت مشکور ہیں جنکی بدولت انھیں کام سیکھنے کا موقع ملا اور اب وہ خود اپنا بوجھ اٹھا رہے ہیں ۔

نوشین نامی خاتون جنھوں نے ابھی ابھی رعنا گل سے سے سیکھ کر سلائی کڑھائی کا کورس مکمل کیا ہے ، نے کہا ہے کہ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں کسی کے لیے کسی بھی طرح کی کوئی مشکل نہیں اور ہر انسان کو یہاں مختلف قسم کے کورسز سیکھنے کا موقع ملتا ہے ۔

نہ کسی سے کوئی فیس کی جاتی ہے اور نہ اس طرح کے دوسری کوئی مشکالات ہے ، یہاں ہر چیز کو طلباء و طالبات کے خواہشات کے مطابق ہر چیز کو انکے لیے آسان بنائی گئی ہے ۔

انکے مطابق اگر یہ تنظیم اس طرح کام کرتی رہی تو معاشرے میں معذور افراد اور عام لوگوں میں کوئی فرق نہیں رہ جائیگا بلکہ افراد باہم معزوری کو بھی عزت کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے گا نہ ان سے کوئی نفرت کریگا نہ حقارت سے پیش آئیگا ۔

Related Articles

Loading...
Back to top button