ملاکنڈ میں تمام سرکاری اور نجی اداروں کے ملازمین سے ٹکس کٹوتی روکنے کا حکم،
سوات (زما سوات ڈاٹ کام ، تازہ ترین۔ 23 مارچ 2019ء) پشاور ہائی کورٹ مینگورہ بنچ کے ڈویژن بنچ کے جسٹس غضنفر علی خان اور جسٹس سید ارشد علی نے ملاکنڈ ڈویژن کے سرکاری و نجی اداروں کے ملازمین سے ٹیکس کٹوتی کے اہم مقدمات میںمحفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے تمام سرکاری و نجی اداروں کو ملاکنڈ ڈویژن میں کام کرنے والے ملازمین سے ٹیکس کٹوتی روکنے اور کاٹے گئے ٹیکس ملازمین کو واپس کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہائی کورٹ میں سرکاری ونجی اداروں کے ملازمین نے 6 رٹ دائر کی تھیں۔ عدالت نے تمام کیسوںکو یکجا کرکے سنا، رٹ دائر کرنے والے ملازمین کی جانب سے خواجہ صلاح الدین ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملاکنڈ ڈویژن ٹیکس سے مستثنی علاقہ ہے۔ حکومت نے اس ڈویژن کی قبائلی حیثیت ختم کرنے کے بعد ملاکنڈ ڈویژن کے تمام اضلاع کو پانچ سال کے لئے 30 جون 2023ء تک ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود ملاکنڈ ڈویژن میں کام کرنے والے ملازمین سے سرکاری ونجی ادارے ماہانہ تنخواہ میں ٹیکس کٹوتی کرتے ہیں۔ عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد 18 فروری 2019ء کو ان مقدمات میں فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ گذشتہ روز عدالت کے ڈویژن بنچ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے حکم تمام سرکاری و نجی اداروں کو حکم دیا ہے، کہ وہ ملاکنڈ ڈویژن میں کام کرنے والے اپنے ملازمین سے ٹیکس کی کٹوتی نہ کریں۔ ان ملازمین سے ٹیکس کی مد میں جو کٹوتی کی گئی ہے، وہ ان ملازمین کو واپس کی جائے۔ ادھر ملاکنڈ ڈویژن میں کام کرنے والے سرکاری ونجی کمپنیوں کے ہزاروں ملازمین کے لئے پشاور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ سب سے بڑی خوشخبری ثابت ہوا۔ سرکاری ملازمین کا کہنا ہے کہ ایک جانب ان کی تنخواہیں نہیں بڑھائی جارہیں اور دوسری جانب پانچ سال کے لئے ٹیکس سے مستثنیٰ علاقہ کے سرکاری ونجی ملازمین سے ٹیکس کی کٹوتی کی جارہی ہے۔ بعض نجی کمپنیوں کے ملازمین کا کہنا تھا کہ ملاکنڈ ڈویژن کی قبائلی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے ان کے اداروں نے ان سے تنخواہ میں ٹیکس کی کٹوتی شروع کی تھی۔ ملازمین نے کہا کہ آج کا دن ان کے لئے عید ثابت ہوا۔ملاکنڈ ڈویژن میں کام کرنے والے دیگر علاقوں کے لوگ جو ملاکنڈ ڈویژن کے ساتوں اضلاع میں تعینات ہیں، کو بھی اس فیصلہ سے فائدہ ہوگا۔ اب دوسرے علاقوں کے وہ لوگ جو ملاکنڈ ڈویژن میں کام کرتے ہیں، ان سے بھی تنخواہ میں ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔ دوسرے علاقوں کے لوگوں نے جتنا عرصہ ملاکنڈ ڈویژن میں کام کیا ہے، ان سے لیا گیا ٹیکس بھی ان کو واپس کردیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق ملاکنڈ ڈویژن میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین جن کی سالانہ تنخواہ 48 لاکھ روپے سے زائد بنتی ہے، ان سے 15فیصدسالانہ ٹیکس لیا جاتا ہے۔ 24 لاکھ سے 48 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ لینے والے ملازمین سے 10 فیصدیعنی60ہزار روپے ٹیکس کاٹا جاتا تھا۔ اس طرح 12لاکھ سے24لاکھ سالانہ تنخواہ لینے والے ملازمین سے 5فیصد سالانہ،8 لاکھ سے12 لاکھ روپے تنخواہ لینے والے ملازمین سے2ہزار روپے ٹیکس کٹوتی ہوتی ہے۔ 25ویں آئینی ترمیم کے بعد اور آرٹیکل247کے خاتمے کے ساتھ ہی صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقہ ملاکنڈ ڈویژن میں وہ تمام قوانین نافذ ہوگئے تھے جو ملک کے باقی حصوں میں نافذ ہیں۔ تاہم شدید عوامی احتجاج پر اس وقت کی حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کو ٹیکس اور کسٹم سے پانچ سال کے لئے مستثنیٰ قرار دیا تھا، جس کی میعاد 30 جون 2023ء کو ختم ہوگی، جس کے بعد ملاکنڈ ڈویژن میںانکم ٹیکس، کسٹم اور تمام قوانین کا نفاذ ہوگا۔