ناجائز منافع خوری،روک تھام ضروری
تحریر : ناصر عالم
اس وقت سوات کابڑا کاروباری مرکزمینگورہ، شہرِناپرسان میں تبدیل ہوچکاہے،دیگرکاروباریوں کی دیکھا دیکھی چائے ہوٹل والے بھی مہنگائی کی دوڑ میں آگے نکل گئے،جنہوں نے چائے کے فی کپ کی قیمت میں مزید دس روپے اضافہ کردیا،چینی، چائے اور گیس کے نرخوں میں اضافے کے بعد اب بیشتر ہوٹلوں میں عام چائے فی کپ 30،40 روپے اوربعض ہوٹلوں میں اسپیشل کپ پچاس روپے میں ملتا ہے جس کاپوچھنے یاروکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں،لوٹ مار کایہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے مگر حکام نے آنکھیں بند رکھی ہیں،یہاں پر بیشتر چائے فروش غیرمقامی ہیں جنہوں نے ہربازار اور ہرمارکیٹ میں ہوٹل کھول رکھاہے جہاں پر نہ صرف من مانے نرخ چلائے جاتے ہیں بلکہ غیرمعیاری اورناقص چائے بھی دھڑادھڑ فروخت ہورہی ہے,ان ہوٹلوں میں چھپاتی نما اور پوری نما پراٹھے بھی ملتے ہیں جس کانرخ بھی آسمان سے باتیں کرتاہے،سادہ پراٹھا چالیس انڈے والا پچاس روپے میں فروخت کیاجاتاہے اور یہ سب کچھ بلکہ عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کایہ سلسلہ بلاخوف وخطر جاری ہے کیونکہ متعلقہ حکام نے اس طرف توجہ دینا بند کردی ہے،پہلے پہل محکمہ فوڈیا کوئی انتظامی آفیسر بازار میں نکل کر ان ہوٹلوں کا معائنہ کرتا مگر اب یہ سلسلہ عرصہ درازسے بند کردیا گیاہے یہی وجہ ہے کہ یہاں پر کھلے عام لوٹ مارجاری ہے،اس کے علاؤہ ان ہوٹلوں میں صفائی ستھرائی کا نظام بھی انتہائی ناقص ہے جہاں پرلوٹ مار کے علاؤہ بیماریاں بھی بانٹی جاتی ہیں،بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ ان ہوٹلوں میں موجود برتن یعنی چائے کے کپ اور پلیٹیں وغیرہ ٹوٹ پھوٹ کاشکارنظرآتے ہیں جن میں گاہکوں کو چائے اور دیگر کھانے رکھے جاتے ہیں اوریہی برتن بھی امراض پھیلانے کا ایک بڑا ذریعہ ہے،غیرمقامی کاروباری افراد مقامی لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں جنہیں ذمہ داروں نے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جن کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں،بات صرف چائے کے ہوٹلوں کی نہیں یہاں پر کھانے پینے کے ہوٹلوں اورریسٹورنٹس میں بھی یہی حال ہے,اب آتے ہیں شام کے بعد کام کرنے والوں کی جنہوں نے تو حفظان صحت کے اصولوں کی دھجیاں ہی اڑادیں یہ وہ لوگ ہیں جو شام کے بعد ہرچوک،مارکیٹ،گلی کوچوں اور محلوں میں آنگیٹھیاں لگاکر چکن پیس اور گوشت کے سیخ فروخت کررہے ہیں جو انتہائی ناقص،مضرصحت اور غیرمعیاری ہیں جن کااستعمال انسان کو بیک وقت کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلاکردیتاہے،یہ سیخ فروش بھی ان ناقص اشیاء کے مرضی کے نرخ وصول کرتے ہیں مگر آج تک اس طرف کسی بھی ذمہ دارنے کسی قسم کی توجہ دینے کی زحمت تک گوارہ نہیں کی ہے،اسی طرح شہرمیں جگہ جگہ اجری،پانچوں کے بڑے بڑے دیگ نما پتیلے،چھولے،لوبیا،کھیرکے تال اور دیگر اشیائے خوردونوش کے برتن سڑکوں کے کناروں یادکانوں میں پڑے نظرآرہے ہیں مگر آج تک کسی نے ان اشیاء کا معائنہ تک نہیں کیاہے کہ ان برتنوں میں پڑی اشیائے خوردونوش معیاری ہیں کہ نہیں،مینگورہ شہر سمیت سوات کے دیگر علاقوں میں چائے کے کپ سے لے کر کھانے پینے کی دیگر اشیاء تک ناقص ومضرصحت ہیں جس کے پیش نظرکہاجاسکتاہے کہ یہاں کے عوام کوغذاکے نام پر زہرکھلایا اور پلایاجارہاہے مگر حکمران صرف تماشا دیکھ رہے ہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت مزید یہ سلسلہ بندکرنے کے لئے فوری اقدامات اٹھاکر انہیں مناسب نرخوں پر معیاری اشیاء کی فراہمی یقینی بناکرعوام کی صحت سے کھیلنے والے عناصر کیخلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائے۔