وزیر اعلیٰ صاحب ! خدارا اجمل کو رکشہ چلانے دیں
خبر ہے کہ سوشل میڈیا پر ٹریفک وارڈن کے اکاؤنٹ سے وائرل ہونے والی ویڈیو پر وزیر اعلیٰ محمود خان نے نوٹس لیا ہے جس میں ایک دس سالہ بچہ چنگ چی رکشہ چلارہا تھا اور ٹریفک وارڈن اسلئے چالان کرنے سے گریزاں رہا کیونکہ بچے سے جب والد بارے پوچھا گیا تو بچہ سسک پڑا اور کہنے لگا کہ والد گردوں کا مریض ہے اور وہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے اسلئے چار پانچ سو روپے کمانے کیلئے مجبوراً رکشہ چلارہا ہے۔۔۔!!!!
عزیزان من۔۔۔!!!
ویڈیو میں چونکہ انتہائی جذباتی اور رقت آمیز مناظر تھے اسلئے مذکورہ ویڈیو تیزی سے گردش کرتی ہوئی وزیر اعلیٰ تک پہنچ گئی اور وزیر اعلیٰ صاحب نے فوراً نوٹس لیتے ہوئے ٹریفک وارڈن سمیت بچے کو (بذریعہ سی سی پی او) مدعو کیا جہاں وزیر اعلیٰ محمود خان کی جانب سے چنگ چی رکشہ چلانے والے بچے کیلئے مبلغ ایک لاکھ روپے نقد امداد کیساتھ ساتھ بیس ہزار روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کرنے کا اعلان کردیا اور تعلیمی اخراجات کی ذمہ داری بھی لے لی۔ وزیر اعلیٰ صاحب نے بچے کی داد رسی بھی کی جبکہ پولیس اہلکار رشید خان کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا۔۔۔۔!!!
عزیزان من ۔۔!!
اگر وعدے ایفا ہوئے تو ممکن ہے کہ مذکورہ بچے کا مستقبل سنور جائیگا لیکن جہاں تک میرا مشاہدہ ہے تو اس بچے کی خودداری اور خود اعتمادی کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔۔۔۔!!!!
کیوں۔۔۔؟؟؟
کیونکہ چھ ماہ پہلے سوات کے آٹھ سالہ اسد خان جوکہ چائے کی ایک ہوٹل میں اڑھائی سو روپے کی دیہاڑی پر کام کرتا تھا سوات پریس کلب کے ایک خدا ترس صحافی سبحان اللہ نے اس پر ایک پروگرام کیا جوکہ وائرل ہوتے ہوئے وزیر اعلیٰ تک پہنچ گیا۔ وزیر اعلیٰ صاحب نے نوٹس لیتے ہوئے اپنے ایک ایم پی اے کو ذمہ داری سونپی اور بچے کیلئے ماہانہ وظیفہ کیساتھ ساتھ نقد امداد کے ہدایات جاری کئے جس پر متعلقہ ایم پی اس بچے گھر پہنچ گیا اور بچے کی داد رسی کرتے ہوئے امداد کی یقین دہانی کرائی اور اسکول داخلہ سمیت گھریلوں اخراجات کیلئے ماہانہ امداد کا وعدہ کیا۔۔۔!!!
لیکن افسوس کا مقام تب آیا کہ جب بچے کو راقم نے دوبارہ اسی ہوٹل پہ برتن دھوتے ہوئے دیکھ لیا اور اس پوچھا کہ بیٹا آپ پھر ہوٹل میں آگئے؟
کیوں کیا ہوا سکول چھوڑدیا۔۔۔؟؟؟؟
تو بچہ چہرے پر اداسی لئے کہنے لگا کہ ہاں۔۔۔!!
مزید پوچھا کہ کیوں آپ کے لئے تو وزیر اعلیٰ صاحب نے ماہانہ وظیفہ اور امداد کا اعلان کیا تھا اور متعلقہ ایم پی اے کو ہدایات جاری ہوئے تھے تو بچہ ضبط کا دامن نہ چھوڑتے ہوئے کہنے لگا کہ اس نے صرف دس ہزار روپے دئے تھے اور باقی سارے وعدے جھوٹے تھے۔۔۔!!!!
اور ایم پی اے صاحب نے اس کے بعد پلٹ کر پوچھا تک نہیں۔۔!!!
تین ماہ سے فون نہیں اٹھا رہے اور میں اس امید سے تین ماہ کام پر نہیں آیا کہ شائد مجھ کو دکھائے گئے خوابوں کی تعبیر کی ایک جھلک دیکھ سکوں۔۔۔!!!!!
لیکن تین ماہ میرا کام خراب کرکے مجھے رنگین خواب دکھائے گئے جبکہ نتیجہ سامنے ظاہر ہے۔۔۔!!!
عزیزان من۔۔۔۔۔!!!!
کمسن اجمل رکشہ چلاتا ہے بیمار والد کا سہارا ہے اور گھر والوں کیلئے روزی کا ذریعہ ہے اب اگر وزیر اعلیٰ صاحب کے وعدے ایفا ہوئے اور اس کی زندگی سنور گئی تو وہ معاشرہ کیلئے ایک مفید انسان بن جائیگا اور شائد اپنے جیسے بے بسوں کیلئے کچھ نہ کچھ کرجائیگا لیکن اگر وزیر اعلیٰ صاحب کے اقدامات محض میڈیا سیشن تک محدود تھے (جوکہ عموماً ہوتے ہیں)تو بخشو پُل کے اجمل کے ساتھ بھی وہی زیادتی ہوئی ہے جو چھ ماہ پہلے سوات کے اسد خان کے ساتھ ہوئی تھی۔۔۔۔!!!!
اور یہ زیادتی ناقابل معافی زیادتی اسلئے ہے کہ اگر غریبوں سے خود اعتمادی اور خودداری کے جوہر چھین کر وظائف اور خیرات کے وعدوں پر ٹرخایا جاتا ہے جس سے غریبوں کے چولہے اس امید پر ٹھنڈے ہوجاتے ہیں کہ کچھ ہی دنوں کی دیر ہے پھر ان کی زندگی سنورنی ہے حالانکہ نتیجہ یہ ہے سب “سیاہ سی” اداکاری ہے۔۔۔!!!
یعنی نشہ پلاکر گرانے والا معاملہ ہے۔۔۔!!!
تو ایسی زیادتی کو معاف کرنا ان بچوں کی بھول ہوگی۔۔۔!!