پرویز مشرف سزا سے پہلے مرجائیں تو لاش ڈی چوک پر 3 دن لٹکائی جائے، تفصیلی فیصلہ
اسلام آباد(ویب ڈیسک ) اسلام آباد میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں جسٹس شاہد فضل کریم اور جسٹس نذر محمد پر مشتمل تین رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔ جسٹس وقار سیٹھ اور جسٹس شاہد فضل کریم نے فیصلہ تحریر کیا۔
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ اور لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد فضل کریم نے سزائے موت سنائی جبکہ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس نذر اللہ اکبر نے اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے کہا کہ استغاثہ کی ٹیم غداری کا مقدمہ ثابت نہیں کرسکی۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا، ان پر آئین پامال کرنے کا جرم ثابت ہوتا ہے اور وہ مجرم ہیں، لہذا پرویز مشرف کو آئین توڑنے کے پانچ جرائم پر 5 مرتبہ الگ الگ سزائے موت دی جائے، قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں گرفتار کرکے سزائے موت پرعملدرآمد کرائیں، اگر پرویز مشرف مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش کو ڈی چوک اسلام آباد میں گھسیٹا جائے اور تین دن تک لٹکائی جائے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ 2013 میں شروع ہونے والا مقدمہ 2019 میں مکمل ہوا، کیس کے حقائق دستاویزی شکل میں موجود ہیں، پرویز مشرف کو دفاع اور شفاف ٹرائل کا پورا موقع دیا گیا اور عدالت نے انہیں ٹرائل کا سامنا کرنے کے متعددمواقع دیے، لیکن وہ پیش نہ ہوئے اور فرد جرم عائد ہونے کے بعد فرار کا رستہ اختیار کیا، ان کا پورے ٹرائل میں یہ موقف رہا کہ خرابی صحت اور سکیورٹی وجوہات پر پیش نہیں ہوسکتا۔
خصوصی عدالت نے حکم دیا کہ پرویز مشرف کے بیرون ملک فرار میں ملوث افراد کے خلاف بھی تحقیقات کرکے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
جسٹس شاہد کریم نے سزائے موت کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ مشرف اپنے دور میں تمام اختیارات کا سرچشمہ تھے جو آئین معطل کرنے کے بعد اپنی خواہشات پر آئین تبدیل کرتے رہے، انہوں نے آئینی اور قانونی احکامات کو آمریت نافذ کرکے ختم کیا، آرٹیکل 6 کو شامل کرنے کا مقصد مستقبل میں ڈکٹیٹرشپ کو روکنا ہے۔ جسٹس شاہد کریم نے ڈی چوک پر لاش لٹکانے کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کو قانون سے ہٹ کر مثالی سزا دینا قانون کے برخلاف ہوگا۔