کرپشن کے اصل پول
پاکستان میں اختیارات کے مراکز میں بیٹھی قوتیں تین ہیں اور تینوں سیاسی ہیں۔ پہلی قوت تمام سیاسی جماعتیں، دوسری پاک فوج اور تیسری عدلیہ۔ یہ تینوں قوتیں کرپٹ ہیں اور ان میں سے زیادہ کرپٹ وہ ہیں جنہوں نے اپنی کرپشن چھپائے رکھنے کے لئے “آئینی تحفظ” حاصل کر رکھا ہے۔ سیاستدان کی بدنصیبی یہ ہے کہ اسے کوئی آئینی تحفظ میسر نہیں سو اس کی کرپشن کے قصے عام ہیں۔ آپ کسی جج کو کرپٹ کہیں گے تو آپ کو “توہین عدالت قانون” کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ کسی جرنیل کو کرپٹ کہیں گے تو “قومی سلامتی ایکٹ” حرکت میں آجائے گا۔ کمال یہ ہے کہ عدلیہ نے اپنی کرپشن چھپانے کے لئے اس درجے کا بندوبست کر رکھا ہے کہ آپ کسی جج کی کرپشن کا میڈیا میں ذکر نہیں کر سکتے، آپ صرف ریفرنس دائر کر سکتے ہیں اور یہ عدلیہ کی مرضی ہے کہ وہ ریفرنس سنے یا نہ سنے۔ اگر بالفرض سننے کا فیصلہ کر بھی لیا تو یہ سماعت سپریم جوڈیشل کونسل کے بند کمرہ اجلاس میں ہوگی اور اگر میڈیا نے اسے رپورٹ کیا تو اعلیٰ عدلیہ آپ پر اتنی قانونی دفعات لگادے گی کہ آپ کا پورا خاندان بھی نہ گن سکے۔ یعنی عدلیہ کا کوئی فرد ملزم بنا تو جج بھی وہ خود ہوگی اور اس کی میڈیا میں رپورٹنگ از روئے آئین “حرام” ہے۔ اس بند و بست کا فائدہ دیکھیں کہ آج تک سپریم جوڈیشل کونسل نے صرف ایک ہی جج کو سزا دی اور وہ بھی چالیس سال قبل۔ باقی سارے ہی جج دودھ کے دھلے تھے اور ہیں۔
یہی معاملہ پاک فوج کا بھی ہے۔ میں نے سابق کور کمانڈروں کے وہ ڈرائینگ رومز بھی دیکھ رکھے ہیں جن میں پڑے شو پیسز میں سے ایک ایک کی قیمت دس دس لاکھ سے اوپر ہے۔ جنرل اختر عبدالرحمن کی موت کے کچھ ہی عرصہ بعد باقاعدہ اخبار میں رپورٹ ہوا کہ ان کے بیٹے کے اکاؤنٹ میں 300 ملین ڈالرز پڑے ہیں اور کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ آپ کسی حاضر سروس فوجی افسر پر انگلی نہیں اٹھا سکتے۔ اگر کوئی حادثاتی طور پر پکڑ میں آ بھی گیا تو اس کے خلاف بھی جج اس کا اپنا ادارہ ہوگا اور آپ نے اسے میڈیا میں اچھالا تو یاد رکھیں کہ موساد نہیں تو را کا ایجنٹ تو آپ کو ثابت کر ہی دیا جائے گا۔ اب عدلیہ کی کار کردگی کا تو یہ حال ہے کہ ہماری سپریم کورٹ حال ہی میں مردوں کو بھی باعزت بری کر چکی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان طویل مدت سے ملک ریاض کے کیسز دبا کر بیٹھا ہوا ہے۔ لاکھوں ایسے کیسز ملک بھر کی عدالتوں میں فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں جو دادا کے دور میں قائم ہوئے اور پوتے انہیں بھگت رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے مشہور ترین وکلا ایک کیس میں کروڑ روپے فیس لیتے ہیں تو مؤکل سے صاف کہدیتے ہیں کہ 90 لاکھ کیش میں لوں گا اور دس لاکھ چیک کی صورت۔ یوں ٹیکس صرف دس لاکھ پر دیتے ہیں۔ پھر ان مشہور وکیلوں کے متعلق یہ بات بھی عدالتی راہداریوں میں گردش کرتی ہے کہ ان میں سے بعض کے مہنگے ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ انہوں نے آئین و قانون کی دفعات زیادہ یاد کر رکھی ہیں یا یہ تشریح بہت اچھی کرتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ ان کی فیس کا ایک حصہ جج کے آف شور اکاؤنٹ میں جاتا ہے۔
جہاں تک فوجی کرپشن کا تعلق ہے تو یہ شروع تو آفیسر میس کی مرغیاں چرانے سے ہوتی ہے لیکن اس کی معراج اسلحے کے وہ سودے ہوتے ہیں جو اربوں ڈالرز میں ہوتے ہیں۔ ایڈمرل منصور الحق سے مشرف کی انا کو چوٹ لگی تو اس نے اس کی ایسی ہی ایک کرپشن بے نقاب کردی۔ جنرل راحیل کو ہیرو بننے کا شوق چڑھا تو اس نے بھی ایک کورکمانڈر کو قربان کردیا لیکن سزا اسے بھی نہیں ہونے دی جبکہ اپنے کام کے حوالے سے اس فوج کا یہ حال ہے کہ مشرقی پاکستان ہاتھ سے جا چکا اور 6 ستمبر کو سب سے بڑی بحث یہ ہوتی رہی کہ 65 کی جنگ میں ہمیں فتح ہوئی تھی یا شکست ؟ سو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سیاستدانوں کی کار کردگی پر انگلی اٹھانے والے ان دونوں تیس مار خانوں کا حال تو یہ ہے۔ بخدا ان میں اور سیاستدانوں میں کوئی فرق نہیں۔ اگر فرق ہے تو بس اتنا کہ انہیں آئینی تحفظ حاصل ہے اور سیاستدان چوک میں کھڑا ہے۔ یا تو کرپشن کیسز میں ان کا آئینی تحفظ ختم کیا جائے یا ایسا ہی تحفظ سیاستدان کو بھی دیدیجئے پھر خود دیکھ لیجئے گا کہ وہ بھی ان جیسا پارسا ہی دکھے گا۔ دوسری بات یہ کہ کوئی اپنے مقدمے میں خود کیسے جج بن سکتا ہے ؟ کرپشن کیسز کی بہترین صورت یہ ہوگی کہ سیاستدان کا احتساب تو سپریم کورٹ ہی کرے لیکن جج اور جرنیل کا احتساب پارلیمنٹ کرے۔ یہ توازن ہی کرپشن کے اصل پول کھول سکتا ہے !
نوٹ : زماسوات ڈاٹ کام کا مصنف کے متن سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔