تحقیق و تحریر : آصف شہزاد
یہ سنہ دو ہزار سات کا زمانہ تھا جب سوات میں حالات خراب ہوئے، شہریوں کو امن و امان کے مسائیل درپیش آئے ہر شہری اپنی زندگی بچانے اور مخدوش حالات میں زندہ رہنے کیلئے کشمکش میں تھا شائد یہی وجوہات تھیں کہ سوات میں رونما ہونے والے ماحولیاتی تبدیلیوں کی طرف کسی کی توجہ نہیں گئی، ان مخدوش حالات کے تقریباً دو سال بعد سوات کی تاریخی نقل مکانی ہوئی اور لوگ گھر بار چھوڑ کر چلے گئے جب دو ماہ بعد فوجی آپریشن مکمل ہوا اور لوگ واپس اپنے گھروں کو لوٹ آئے تو مزید دو سال تک حالات مخدوش ہی تھے بے ایسے شمار مسائیل تھے جن کی وجہ سے شہریوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں پر سوچنے کا موقع نہیں ملا تاہم کچھ عرصہ گزرنے کے بعد شہریوں کو یہ احساس ہوا کہ مینگورہ کے بازاروں اور آس پاس کے علاقوں میں سوات کے مقبول عام پرندے یعنی ابابیل شہر سے غائب ہیں جس سے یہاں کے شہریوں کو فطری طور پر ان ابابیلوں کے جانے پر غم کا احساس ہوا چونکہ مینگورہ شہر اور آس پاس کے علاقوں میں بسنے والے ان ابابیلوں کا یہاں کے لوگوں سے ایک منفرد رشتہ تھا شام ہوتے ہی بازاروں میں بجلی کے تاروں پر جوق در جوق صف آراں ہوجاتے تھے اور بہت دیر تک ان تاروں پر وقت گزارتے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سوات کی سیر کیلئے آنے والے سیاح ان ابابیلوں کے بجلی کے تاروں پر بیٹھنے کے انداز سے لطف اندوز ہوتے تھے اور اس کیلئے مین بازار چوک اور نشاط چوک میں کھڑے رہتے تھے جبکہ بین الاقوامی سیاح خاص زاویوں سے ان کی فوٹوگرافی کیا کرتے تھے۔

شام کے وقت ان کی آوازیں بازار کا رونق بڑھاتے تھے اور یہاں کے لوگ کئی دہائیوں سے ان آوازوں کے ساتھ مانوس ہوگئے تھے ، تقریباً ہر گھر میں چھت کے کسی کونے پر ابابیل کا گھونسلہ ہوا کرتا تھا جوکہ گارے اور ٹہنیوں سے بنا ہوتا تھا ان ابابیلوں کا بنیادی خوراک ہوا میں اڑنے والے کیڑے ہوتے ہیں اسلئے یہ ہوا میں ہی شکار کرتے اور ان کو پکڑ کر اپنے بچوں کیلئے بھی خوراک کا بندوبست کرتے ہیں ان ابابیلوں کے گھونسلہ کیلئے درکار خاص قسم کی ٹہنیاں اور گارا دریائے سوات کے کناروں سے ان کو میسر تھا غرض ان کو ضروریات زندگی کا تمام ماحول اس علاقہ میں میسر تھا،

سوات کے باسی بچپن ہی اس مذہبی تھیوری پر عمل پیرا تھے کہ ابابیل ایک مقدس پرندہ ہے جس نے ابرہا کے لشکر کو کنکریاں مار کر نیست و نابود کردیا تھا اس لئے ابابیل کو مارنا یا نقصان پہنچانا گناہ ہے اس کیساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کا یہ بھی ماننا تھا کہ جب ابابیل چہچہاتا ہے تو قران کی آیت “انا للہ علی کل شئ قدیر” کا ورد کرتا ہے اور حیران کن طور پر اس پرندے کی چہچہاہٹ اس آیت سے ممثالت بھی رکھتی ہے تاہم یہ بات صرف علاقائی روایات تک محدود ہے اور اس ضمن کوئی ٹھوس ثبوت یا دستاویزی روایت موجود نہیں ہے

ابابیل پرندے کی کئی قسمیں ہیں لیکن جنگلی حیات کے ماہر میاں اعزاز علیم (جن کا تعلق بھی سوات سے ہے) کے مطابق سوات میں جو ابابیل ھجرت کرکے آتے تھے ان میں بارن سوالو ، وائر ٹیلڈ اور ریڈ رمپڈ کی ھجرت خاص طور پر ریکارڈ کی گئی ہیں یہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سوات آتے تھے جبکہ جولائی کے آخر تک واپس ھجرت کرکے اس کی تعداد کم ہوجاتی تھی میاں اعزاز علیم بتاتے ہیں کہ مینگورہ شہر کے بازار میں بجلی تاروں پر بڑی تعداد میں نظر آنے والے ابابیل بارن سوالو نسل (ہرنڈو رسٹیکا) کے ابابیل تھے۔ مینگورہ کے قدیم باسیوں کے مطابق بہار کے شروع ہوتے ہی یہ پرندے سوات آنا شروع ہوجاتے تھے ماہر جنگلی حیات میاں اعزاز علیم مزید بتاتے ہیں کہ یہ پرندے “فضائی پرندے” ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہ اپنا زیادہ تر وقت پرواز میں ہی گزارتے ہیں۔ وہ اڑتے وقت پیتے ہیں ، اڑتے وقت شکار کرتے ہیں اور اڑتے وقت ہی کھاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی خوراک بھی بنیادی طور پر اڑنے والے کیڑوں پر ہی مشتمل ہوتی ہے۔اور واضح طور پر مینگورہ کا علاقہ اب ایک بڑا شہر بن چکا ہے جہاں اڑنے والے کیڑے نواحی علاقوں اور دیہات کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہوئے ہیں اور شائد یہی اہم وجہ ہے کہ ابابیلوں کی آبادی میں کمی آئی ہے جدید تحقیق کے مطابق ان کی ھجرت خوراک کی دستیابی پر منحصر ہوتا ہے اور یہ پرندہ ایک دن میں سینکڑوں میل تک کا سفر کرسکتا ہے اور ہوا میں ہی کیڑے مکوڑوں کا شکار کرکے چلتا رہتا ہے اور کافی تندہی سے محو پرواز رہتا ہے، سوات کے باسیوں کا خیال ہے کہ جب سوات کا علاقہ جنگ زدہ ہوا تو مختلف اقسام کے بارودی مادوں کا استعمال اور خاص طور پر فوج کی جانب سے بھاری مارٹر گولوں اور شدت پسندوں کی جانب سے دھماکوں نے شائد ان ابابیلوں کو دوبارہ سوات آنے سے روک دیا اور اس حوالہ سے ایک نیوز رپورٹ نے اس بات کی تصدیق کو قدرے سہارا بھی دیا مذکورہ رپورٹ کے مطابق چند سال قبل امریکی ریاست کیلیفورنیا کے بولسا چیکا ماحولیاتی پارک میں نایاب ترین ایلگینٹ ٹرن ہر سال انڈے دینے آتے ہیں یہ خوبصورت پرندہ سمندری ابابیل کی ایک قسم ہے ۔اس پارک میں ایک ڈرون آ گرا تھا جس کے بعد پرندے وہاں سے غائب ہوگئے اور آج تک واپس نہیں آئے جبکہ ان کے 2 ہزار کے قریب انڈے بھی وہیں پڑے ہوئے تھے جوکہ عرصہ گزرنے کے باعث خراب ہوگئے ۔

ڈرون پائلٹس کو پرندوں کے ہزاروں انڈے خراب ہونے کے نتیجے میں نسل کی تباہی اور ماحول کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا تھا، جس کی وجہ سے علاقے میں ڈرون اڑانے پر پابندی لگ گئی۔
تاہم دیگر ماہرین کی رائے سمیت میاں اعزاز علیم کے مطابق بم دھماکوں اور بارودی مواد کے استعمال کا ابابیل پرندوں کے ھجرت یا ناپیدگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔کیونکہ ایسی صورت میں دوسرے اقسام کے پرندوں جیسے کامن میناس اور ہاؤس کروز کو بھی یہ علاقہ چھوڑنا چاہیے تھا۔ان ابابیلوں کے اچانک غائب ہونے کے پیچھے خراب حالات کا کوئی بھی سائینسی یا تحقیقی حوالہ دستیاب نہیں ہے۔
میاں اعزاز علیم کے مطابق اگر یہاں کے اڑتے ہوئے کیڑوں پر ایک جامع تحقیق کی جائے تو یقینا وہی نتائج برآمد ہوں گے جو کہ دیگر ممالک میں کئے گئے تحقیقات سے اخذ ہوئے تھے۔ان تحقیقات کے مطابق انگلینڈ اور کچھ دیگر ممالک میں تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کئی برسوں کے دوران اڑنے والے کیڑوں کی آبادی میں کمی آئی ہے جن میں کیڑے مار ادویات کے زیادہ استعمال اور خطرناک زرعی طریقوں کا بنیادی کردار ہے اور اڑنے والے ان کیڑوں کی کمی ابابیلوں کی آبادی میں کمی کا باعث بنی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سوات کا ماحول اب بھی ان کے لیے موزوں ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے یہ ابابیل اب بھی ہر سال فروری میں چھوٹی تعداد میں سوات آتے ہیں اور جولائی کے آخر تک قیام کرتے ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر 174 مشاہدات کے ساتھ مینگورہ (اور سوات کے دیگر مخصوص علاقوں) میں ان کے پورے ہجرت کے رجحان اور وقت کو ریکارڈ کیا ہے!
اب بھی اگر مینگورہ شہر میں ماحول کو موزوں بنانے کیلئے اقدامات کئے جائے تو بڑی تعداد میں ان ابابیلوں کی واپسی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ان اقدامات میں میں کیڑے مار ادویات پر پابندی جبکہ زرعی شعبے میں زیادہ بائیو کنٹرول اور ماحول دوست طریقوں کو اپنانا شامل ہوگا۔ان اقدامات کے بعد کیڑے مکوڑوں کی آبادی کو مستحکم ہونے میں شائد کچھ سال لگیں گے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ ان ابابیلوں کیلئے شکار کا ماحول دن بدن موزوں ہوتا جائیگا جو کہ ممکنہ طور پر ان ابابیلوں کو اپنی طرف متوجہ کرے گا۔اور ان کی واپسی ممکن ہوسکتی ہے۔
گزشتہ دو یا تین برسوں سے سوات کے مختلف علاقوں میں ان ابابیلوں کے کئی جھنڈ دیکھے گئے ہیں سوات کے علاقہ بریکوٹ ، منگلور ، اور برہ بانڈئی میں بجلی کی تاروں پر ان کا روائتی انداز دیکھ کر سوات کے لوگوں کو ان پرندوں کی دوبارہ آمد پر کافی خوشی کا احساس ہوا ہے تاہم پہلے کی طرح ان پرندوں کا دوبارہ آنا اور بازاروں میں بجلی کی تاروں پر جوق درجوق بیٹھنا شائد کافی وقت لے سکتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کارنیل لیب آف آرنیتھولوجی کی تحقیق جوکہ ای برڈ ہجرت کے رجحانات کے اعداد و شمار پر مبنی ہے نے ظاہر کیا ہے کہ دو ممکنہ مقامات ہیں جہاں سے یہ پرندے سوات ہجرت کرتے ہیں۔ایک جزیرہ نما بھارت اور دوسرا جنوبی پاکستان لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ پرندوں پر تحقیق کے جدید طریقوں جیسے برڈ رِنگنگ اور ایوین سیٹلائٹ ٹیگ کے مطالعہ سے ان سوالات کے درست جوابات حاصل کئے جاسکتے ہیں۔