فیکٹ چیک

کیا عمران خان واقعی انٹرنیٹ پر وائرل ڈیتھ سیل میں قید ہے۔

سماجی رابطوں کے ویب سائیٹس پر ایک ڈیتھ سیل کی تصویر وائرل ہورہی ہے جس کے بارے میں مختلف سوشل میڈیا صارفین دعوی کررہے ہے کہ عمران خان کو اڈیالہ جیل میں اس سیل میں رکھا گیا ہے جوکہ دکھنے میں بھی انتہائی خوفناک ہے تصویر کے حوالے سے مختلف صارفین ابہام پر مبنی خبریں بھی پھیلا رہےہیں۔

اس حوالے سے ایک صارف نے (بھوک )نامی ایک فیسبک اکاؤنٹ سے دعوی کیا ہے کہ

“اڈیالہ جیل کے اس گھپ اندھیرے والے سیل میں عمران خان قید ہیں، چند ہفتے اندھیرے میں کسی انسان کو قید کرنے کی نتائج انتہائی خطرناک ہونگے ۔ جیسے آپ نے عمران ریاض خان اور شہر یار آفریدی کی حالت دیکھی لیکن وہ جوان جسم تھے عمران خان بوڑھا جسم ہے جسکو وٹامن ڈی کی شدید ضرورت ہے۔

دوسرا نقصان یہ کہ دماغ سوچناسمجھنا چھوڑ دیتاہے

مزید یہ کہ چند ہفتے گھپ اندھیرے والے سیل میں رہنے اور ورزش نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی جسم چند ہفتوں میں گروتھ ختم کردیتا ہے

شائد یہی پروگرام بنایا گیا ہے کہ عمران خان کو ختم کردیا جائے اور الزام بھی نہ آئے “

ایک دوسرا فیسبک صارف (تحریک انصاف راولاکوٹ) اس تصویر کے حوالے سے دعوی کررہا ہے کہ

“زیرِ نظر تصویر میں اڈیالہ جیل کا ایک سب سے چھوٹا اور تنگ سیل ہے اور پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم و بانی شوکت خانم کینسر ہسپتال و بانی نمل یونیورسٹی و قومی ہیرو کرکٹ ورلڈ کپ ونر عمران احمد خان نیازی اسی سیل میں اس وقت قید ہیں،

وہ ایک چھوٹے سے کمرے میں قید ہے، چہل قدمی تک کی بھی اجازت نہیں مگر وہ مشکلات برداشت کرلے گا اور ڈٹ کر اپنے موقف پر کھڑا رہے گا۔”

فیکٹ چیک

اس وائرل تصویر کی حقیقت جاننے کیلئے ہم نے اس کو پہلے گوگل ایمج سرچ اور پھر ٹن آئی سے چیک کیا تو معلوم ہو کہ اصل میں یہ تصویر انٹرنیٹ سے اٹھائی گئی ہے اور اس تصویر کا اڈیالہ جیل سے کوئی تعلق بلکہ اس تصویر کہ حقیقت کو زیر نظر تصویر میں واضح طورپر دیکھا جا سکتا ہے

دوسری جانب ہماری زرائع کیمطابق اب تک اس تصویر سے منسلک جتنی بھی خبریں گردش کررہی ہیں ان میں بھی کوئی صداقت نہیں ہے کیونکہ تصویر ہی جعلی ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ تصویر کے حوالے سے عوامی رائے بھی محظ خیالی باتیں ہے جس کا حقیقت سے کوئے تعلق نہیں۔

یہ تصویر اصل میں میسوری سٹیٹ کی ہے جسے انٹرنیٹ سے اٹھاکر کچھ سوشل میڈیا صارفین اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ تصویر کی حقیقت جاننے کیلئے کوئی بھی انٹرنٹ صارف گوگل ایمج سرچ کا استعمال کرکے اس کی حقیقت معلوم کرسکتے ہے لہذا یہ تمام تر نیوز جھوٹ اور فیک ہے۔

Related Articles

Loading...
Back to top button