سوات ڈلہ
سوات ڈلہ | تحریر : فضل محمود روخان
یہ 1917ءکا سال تھا۔ میاں گل عبدالودود نے ریاست سوات کی بنیاد رکھی۔ گو کہ اس ریاست کے اب ٹھیک سو سال گزر چکے ہیں۔ یہ ریاست چار ہزار مربع میل پر محیط تھی اور یہ ”ریاستِ خداداد یوسفزئی“ کہلاتی تھی، یعنی یوسف زئی پختونوں کی حکومت۔ 1969ءکو مارشل لائی حکومت نے مذکورہ ریاست کو مدغم کرکے پاکستان میں اسے ضلع کی حیثیت سے شامل کر دیا۔ اس وقت سے پاکستان کی مختلف سیاسی پارٹیاں سوات میں براجمان ہیں۔ ریاست سوات میں بادشاہ صاحب اور والئی سوات کی حکمرانی میں خان، خوانین، ملک اور بڑے بڑے کاروباری لوگ زیادہ مستفید ہوتے رہے۔ سوات کے عام لوگوں کو حکومت وقت سے زیادہ سروکار نہیں تھا۔ البتہ جان، مال اور آبرو سب کی محفوظ تھی۔ امن وامان تھا، سوات کے باشندے آزاد فضا میں سانس لے رہے تھے۔ ایوبی دورِ حکومت کے آخری دنوں میں سوات کا مراعات یافتہ طبقہ بادِ مخالف کو دیکھ کر والئی سوات کی مخالفت پر اُتر آیا۔ اُدھر پاکستان میں ایوب خان کی حکومت کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے اور یہاں سوات میں والی کے خلاف اندرونی سازشیں زور پکڑ رہی تھیں۔ جب ایوب کی حکومت ختم ہوئی اور یحییٰ خان کی فوجی حکومت برسرِ اقتدار آئی، تو انہوں نے اپنی حکومت کے چند ماہ بعد سوات میں قائم باون سالہ حکومت کے ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اُس وقت والئی سوات کا حامی ”ڈَلہ“ قیوم مسلم لیگ میں چلا گیا اور والئی سوات کا مخالف ”ڈَلہ“ ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہوا۔ سوات کے عام لوگوں نے اپنی اپنی پسند کی سیاسی پارٹیوں میں شمولیت اختیار کی۔ سوات کے لوگوں میں نظم و ضبط پہلے سے موجود تھا اور سیاسی شعور مختلف پارٹیوں میں پختہ ہوتا رہا۔ 1969ءسے لے کر 2017ءتک پاکستان میں عام انتخابات میں سوات کے لوگوں نے پختہ سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا اور ہر الیکشن میں کسی ایک پارٹی کو مجموعی طور پر کامیاب بنایا۔ جس میں مسلم لیگ ”قیوم خان“ گروپ، ایم ایم اے، اے این پی اور تحریک انصاف یعنی سب پارٹیوں کو صوبے میں برسرِاقتدار کیا۔ لیکن ان پارٹیوں نے سوات کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا، اور ریاست کے دنوں کے ترقی یافتہ سوات کو جان بوجھ کر پس ماندہ رکھا۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ جب بھی صوبے میں سیاسی پارٹی کی حکومت بنتی ہے، تو وزیراعلیٰ ایبٹ آباد، سری کوٹ، بنوں، ڈی آئی خان، کوہاٹ، چارسدہ، نوشہرہ، مردان وغیرہ سے لیا جاتا ہے۔ برائے نام ”وزیر“ کو سوات سے لیا جاتا ہے اور وہ بھی بہ امر مجبوری، ورنہ سوات سے یہ وزیر بھی نہ لیا جاتا۔ قارئین، سوات کو نظر انداز تو کیا جاتا ہے لیکن پورا ملاکنڈ ڈویژن بھی ان سیاسی پارٹیوں کو نظر نہیں آتا کہ یہاں سے کسی کو وزیر اعلیٰ بنایا جائے، تاکہ وہ اس ڈویژن کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جس علاقے سے وزیراعلیٰ لیا جاتا ہے، وہ جلد ترقی کی منازل طے کرتا ہے اور باقی علاقے نظر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ یہ بھی بڑے افسوس کی بات ہے کہ حکومت بنانے میں مشترکہ طور پر سوات کے جملہ ایم پی ایز اپنا اپنا رول ادا کرتے ہیں، لیکن بعد میں سوات کے مفاد کے لےے یہ کسی بھی حکومت میں اکٹھے نہیں ہوئے۔ اگر یہ ایم پی ایز مسلم لیگ حکومت میں، ایم ایم اے حکومت میں، اے این پی حکومت میں یا تحریک انصاف کی حکومت میں سوات کے مفاد کے لےے ہم آواز ہوجاتے، تو پھر بھی سوات ترقی کر لیتا۔ اب افسوس سوات میں سڑکوں کا برا حال ہے، بجلی لوڈشیڈنگ سوات میں سب سے زیادہ ہو رہی ہے، ایبٹ آباد میں چوبیس گھنٹوں میں صرف پانچ گھنٹے لوڈشیڈنگ جبکہ یہاں سوات میں بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ مطلب یہ کہ سوات کے ساتھ ہر حکومت میں ناانصافی ہو رہی ہے، لیکن سوات کے ایم پی ایز سوات کی ترقی کے لےے یکجا نہیں ہوتے۔اب سوات کے باشعور لوگ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں سے منھ موڑ کر سوات کی سطح پر سوات ہی کے مفاد میں ”ڈلہ“ بنانے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں، تاکہ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں سے اپنے سوات کو اور سوات کے عوام کو مزید ناانصافی سے بچالےں۔ سوات کو ترقی یافتہ بنانے کے لےے سوات میں اتحاد، اتفاق اور ”رور ولی“ کو فروغ دیں۔ تاکہ وہ پاکستان کی مرکزی اور صوبائی سطح پر اپنا مقام بناسکیں اور سوات بلکہ پورے ملاکنڈ ڈویژن میں ڈلہ کو آگے کرسکیں۔ مطلب، سوات ڈلہ، دیر، ملاکنڈ، بونیر، شانگلہ اور کوہستان ڈلہ کے ناموں سے وہاں کے عوام اپنے علاقوں میں ڈلے بنائیں، تاکہ وہ بھی ترقی کے سفر پر گامزن ہوسکیں۔