گندہ ترین شہر
گندہ ترین شہر | پروفیسر سیف اللہ خان
ایک نجی ٹی وی سٹیشن نے اپنی پچیس جولائی 2017ء شام چھے بجے کی نشریات میں بتایا تھا کہ ’’ورلڈ اکنامک سروے‘‘ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں دنیا کے چودہ شہروں کو فضائی آلودگی کے حوالے سے گندہ ترین قرار دیا ہے اور پشاور کو دوسرے نمبر پر گندہ پایا ہے۔ اُس رپورٹ میں کراچی، اسلام آباد اور راولپنڈی کو بھی ٹاپ کے گندے شہرقرار دیا ہے۔ یہ بڑی افسوسناک صورت حال ہے کہ وطن عزیز کی مرکزی اور صوبائی دارالحکومتوں کو بھی گندہ شہروں میں پایا گیا ہے۔ ’’اگر ورلڈ اکنامک سروے‘‘ نامی ادارہ پاکستانی مسلمانوں کے دوسرے شہروں اور قصبوں کو دیکھتا، تو شاید وہ ہمیں مزید غیر ذمہ دار لوگ قرار دیتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پشاور نہایت ہی خوبصورت اور صاف ستھرا شہر تھا۔ مینگورہ سوات کی خوبصورتی کی تو مثال نہ تھی، نہ نالیوں میں کالے رنگ کا بدبودار پانی ہوتا تھا اور نہ سڑکوں، گلیوں میں گرد اور غلاظت ہوتی تھی۔ ہمارے چشمے اور نالے صاف و شفاف اور مچھلیوں سے بھرے رہتے تھے۔ پشاور کا سبزہ حیران کن تھا اور کسی نے اسے بجا طور پر پھولوں کا شہر کہا تھا۔ یہ تھا ہی پھولوں کا شہر۔ میری یا میری عمر سے زیادہ یا کچھ کم لوگ جو زندہ ہیں، میری بات کی تصدیق کریں گے۔ پھر پشاور پر عجیب قسم کی افتاد آپڑی۔ پہلی افتاد اُس وقت آپڑی جب بڑے بھٹو نے عوام کے حقوق کے نام پر عوام کو وحشی اور قانون شکن بنادیا اور انہوں نے ہر حفاظت اور ہر پابندی کی دھجیاں اُڑانا شروع کیں۔ الراشی والمرتشی ماحول زیادہ مستحکم ہوا اور لکڑی ٹال مافیا نے متعلقہ سرکاری اور میونسپل ملازمین کے ساتھ مل کر پشاور کے ہزاروں درختوں کو جن کی عمریں سیکڑوں سال تھیں، کاٹ ڈالا۔ دوسری افتاد جو بہت بڑی تھی وہ افغان مہاجرین کی آمد تھی، جو بحیثیت قوم پاکستان آگئے تھے، وہ ہر طرح کے حاجتمند اور محروم لوگ تھے۔ انہوں نے پشاور کے چھوٹے پودوں کا ایسا صفایا کیا جیسا کہ ایک حجام استرے کی مدد سے بالوں کا کرتا ہے۔ تیسری افتاد جو پورے ملک پر ہے، وہ انسانی آبادی میں عظیم اضافے اور اچھے اقدار کی رحلت ہے۔ چوتھی افتاد کچے مالداروں کی کثرت اور سرکاری و میونسپل اداروں کی مغلوبیت ہوئی۔ ہر مالدار نے اپنی مرضی کی عمارت کھڑی کی، گاڑی خریدی اور کارخانہ لگایا۔ فضائی آلودگی کے عمل کو دھواں پیدا کرنی والی چیزوں کو کم کرنے اور زیادہ سے زیادہ درخت اگانا کنٹرول کرتے ہیں اور ان فرائض میں ہماری غفلتیں اور کوتاہیاں ناقابل معافی ہیں۔ پشاور اور کراچی پہلے دہشت گردی، انسانوں کو ذبح کرنے اور املاک کو بموں سے اڑانے اور شعلوں کے حوالے کرنے کے لیے دنیا بھر میں جانے جاتے تھے۔ اب غلاظتوں کے لیے مشہور ہوئے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے شہر ہیں جن کے لیے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے۔ شہر یا ملک کو صاف ستھرا رکھنے کی ذمہ داری صرف حکومت یا محکموں کی نہیں ہوتی۔ یہ ذمہ داری ہرشخص کی ہوتی ہے۔ نبی کریمؐ بچوں اور بڑوں، مردوں اور خواتین سب کو ضروری تعلیمات دیا کرتے تھے۔ اُن سے قبل عوامی تربیت یعنی ’’ماس ٹریننگ‘‘ کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ اُن کی بے شمار تعلیمات اور ہدایات کو ہم نے رکوع و سجود سے متعلقہ معاملات تک محدود کیا ہوا ہے۔ آپؐ کا یہ عظیم حکم کہ پودوں اور گھاس کو بلا ضرورت نہ کاٹا جائے۔ آپؐ کا یہ حکم کہ پانی کو آلودہ نہ کیا جائے۔ آپؐ کا یہ حکم کہ اپنے مکان کو ایسا اونچا نہ کرو کہ پڑوسی ہوا اور روشنی سے محروم ہوجائے۔ آپؐ کا یہ حکم کہ عوام کے لیے راستہ کھلا رکھا کرو، خواہ اس کے لیے مسجد کو تنگ کرنا پڑے۔ آپؐ کا یہ حکم کہ برتنوں کو ڈھانپا کرو۔ آپؐ کا یہ حکم کہ کسی بھی مرداراور بدبودار چیز کو مٹی میں دبایا کرو۔ اب اپنی طرف دیکھئے، ہمارے اُمرا (سرکاری اور میونسپل ملازمین) خود آلودگیوں کی اجازت دیتے ہیں۔ ابھی ابھی میونسپل آفس مینگورہ نے ایسے نا مناسب کاموں کی اجازت دی ہے کہ ہمیں اپنے انسان ہونے پر شک پڑنے لگا ہے۔ پی ٹی آئی سرکار نے بلین درختوں کو معلوم نہیں کہا اُگایا اور اُن پر کتنا خرچہ اٹھا؟ کم از کم میں نے کسی مولانا کو نہیں سنا کہ اُس نے اپنے خطبے یا تقریر میں صفائی ستھرائی کے بارے میں وعظ کی ہو یا درخت لگانے کے ثواب بتائے ہوں یا صاف پانی کو آلودہ کرنے سے منع کیا ہو۔ اس لیے یہ حکم رسولؐ ہم پر بالکل درست آتا ہے کہ وہ لوگ فلاح نہیں پاسکتے جن کے امرا و علما گمراہ ہوں۔ بچپن میں ہم اپنے بزرگوں سے سنا کرتے تھے کہ ’’پودے خالق کی ثنا کرتے ہیں، اس لیے ان کی حفاظت کرو۔‘‘ اب یہ تعلیم کون دیتا ہے؟ بین الاقوامی سطح کے ادارے کی طرف سے پاکستانی مسلمانوں کے تین اہم شہروں کو فضائی آلودگی کے حوالے سے خراب ترین قرار دینا اہلِ فکر و نظر کے لیے تشویشناک ہونا چاہئے، لیکن بات آتی ہے امام اور امیر کی اہلیت پر۔ چھوٹے صاحبِ محراب سے لے کر بڑے سے بڑے آفیسر اور محتسب تک امام کی تعریف میں آتے ہیں، یعنی اصلاح کرنے والا، درست کرنے والا اور اصلاح و درستگی کرنے والا وہ ہوسکتا ہے جو اُن معاملات کے بارے میں مکمل علم رکھتا یا رکھتی ہو۔ اس طرح ایک عام پولیس مین سے لے کر وزیراعظم تک سب امیر ہوتے ہیں یعنی رہنما۔ اب کیا کیا جائے مسلمانوں کے معاشروں میں ان لوگوں کی تعلیم و تربیت کے معیار کا جو اپنے زمانے کے مسائل اور مشکلات اور ان کے حل بتانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں جبکہ مسلمان عوام پر علما و امرا کا اثر اظہر من الشمس ہے۔ اگر ہماری مساجد چاہے، تو چند مہینوں کے اندر اندر مسلمانوں کے معاشرے میں مثبت بدیلیاں آسکتی ہیں۔ دیو بندی مکتبہ فکر کی حالیہ مذہبی تحاریک میں ایک بھارت کی زمین پر جنم لینی والی تبلیغی جماعت ہے ان کے اجتماعات اور نمازوں (بشمول نمازِ جمعہ) کے احاطوں؍ عمارات کو مرکز کہتے ہیں، اس لیے میں الفاظ مساجد و مراکز استعمال کروں گا۔ مراکز میں مخلص اور متوجہ نمازیوں کی تعداد قابل قدر ہوتی ہے۔ اس طرح اس جماعت کی اپنی ہر دلعزیز کتب ہیں جن کو ہر وقت پڑھ کر سنایا جاتاہے۔ اگر دورِ جدید کے مسائل پر معلومات مساجد اور مراکز سے پھیلائی جانی والی تعلیمات میں بھی شامل کی جائیں، تو بہت کم وقت میں مثبت نتائج سامنے آجائیں گے۔ حکمران اور حکومت کی بات ماننے اور حکم عدولی پر شریعت اسلامی کیا کہتی ہے؟ یہ علمائے اسلام کو معلوم ہوگا۔ اس لیے ان اُمور پر مسلمان عوام کی تربیت ضروری ہے۔ ہمارے بے شمار مسائل قوانین کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ہیں۔ اس طرح شریعت اسلامی میں حکمران کا اور حکومتی عمال کا معیار کیا بیان کیا گیا ہے؟ یہ بھی اگر مسلسل مسلمانوں کے گوش گزار کیا جائے، تو نا اہلی میں کمی آسکے گی۔ اگر مساجد و مراکز رشوت ستانی، بدعنوانی کے برے نتائج پر عوام کی تربیت کریں، تو بہت زیادہ فوائد ہوں گے۔ مساجد، محراب و منبر اور آیمہ، اللہ کی نعمتیں ہیں۔ اگر یہ نعمتیں ادھوری کی جگہ مکمل کردار ادا کرنا شروع کردیں، تو اسلام اور مسلمانوں پر اُٹھنے والی انگلیاں خود بہ خود نیچی ہوجائیں گی۔