2018 انتخابات، سوات میں مسلم لیگ کو شدید مشکلات کا سامنا، متعدد رہنما اور کارکن ناراض
سوات (زما سوات ڈاٹ کام ، تازہ ترین۔ 24 جون 2018ء) الیکشن 2018 ، عوامی سروے کے مطابق این اے 3 سوات میں ن لیگ کو کامیابی ملنے کا امکان بہت کم ہے ، امیر مقام ناراض لیگی رہنماؤں کو منانے میں ناکام ہوچکا ہے، لیگیوں کی ناراضگی اور تحفظات دور نہ ہو سکے عبدالرحیم اور سید صادق عزیزکی ناراضگی کے باعث این اے 3 میں مسلم لیگ ن کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ، ناراض رہنما اُڑان بھرنے کیلئے تیار ہیں، شہباز شریف کا سوات سے سیٹ جیتنے کا خواب ادھورا رہ جانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں ، کارکنوں نے بھی اوپر سے مسلط کردہ فیصلے مسترد کر دئیے اہل علاقہ نے شہباز شریف کی نامزدگی کو بھونڈا مذاق قرار دیدیا ، تفصیلات کے مطابق عام انتخابات کیلئے پاکستان مسلم لیگ ن کیلئے قومی اسمبلی کی نشست این اے 3 اور پی کے 5 میں ن لیگ کیلئے مشکلات بڑھ گئے ہیں اور سوات ٹریڈرز فیڈریشن کے صدر اور اہم سیاسی شخصیت عبدالرحیم اور پاکستان مسلم لیگ ن مینگورہ سٹی کے صدر سید صادق عزیز پارٹی سے ناراض ہو گئے ہیں اور امیر مقام کے بار بار جرگوں کے باوجود بھی وہ مان نہیں رہے اسی حلقہ سے شہباز شریف کو میدان میں اُتارنے کے بعد اہم سیاسی شخصیت اور والئی سوات خاندان کے رہنما اور سابق ایم این اے مسرت احمد زیب اور انکے بیٹے عمر فاروق باچہ کو بھی پارٹی کے مرکزی اور صوبائی قائدین کی جانب سے نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ انتخابی مہم کے سلسلے میں ان سے مشاورت یا رابطہ تک نہیں کیا گیا جس کیوجہ سے وہ بھی پارٹی امور سے پس منظر میں چلے گئے ہیں مینگورہ سٹی کے دونوں نشستوں پر ن لیگ کے صوبائی صدر امیر مقام کی جانب سے الیکشن کمپئن کی نگرانی کیلئے عبدالرحیم کو انچارج مقرر کیا جا رہا تھا جس پر انہوں نے صاف انکار کردیا۔ ذرائع کے مطابق دونوں سیاسی رہنماؤں سے دیگر ناراض اور نظریاتی کارکنوں نے بھی رابطے تیز کر دئیے ہیں اور صلاح و مشورے جاری ہیں جس کے بعد عبدالرحیم اور سید صادق عزیز کسی بھی سیاسی پارٹی سے سیاسی اتحاد یا دوسرے پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کرینگے جس سے ن لیگ کے مشکلات مزید بڑھ جانے امکان ہے یاد رہے کہ عبدالرحیم کی جانب سے این اے 3 اور سید صادق عزیز کی جانب سے پی کے 5 کے لئے درخواستیں جمع کرئی گئیں تھیں تاہم دونوں رہنماؤں کو نظر انداز کیا گیا اور خصوصاً عبدالرحیم علاقہ کے معروف شخصیات میں شمار ہوتا ہے جس کی وجہ سے سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے ان سے رابطے تیز کر دئیے ہیں اور ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔