پروفیسر سیف اللہ خان

کیا یہ اقدام وطن دشمن نہیں

کیا یہ اقدام وطن دشمن نہیں | تحریر : پروفیسر سیف اللہ خان

کسی بھی وطن یا معاشرے میں عوام کو مختلف قسم کی شکایات ہوسکتی ہیں۔ ایسا کوئی ملک یا معاشرہ کہیں بھی نہ ہوگا، جہاں عوام اور خواص سو فی صد مطمئن ہوں۔ کوئی بڑی یا چھوٹی، عام یا خاص شکایت یا شکایات ضرور ہوتی ہیں۔ قابل حکمرانوں کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ اُن شکایات کی وجوہات کو معلوم کرتے ہیں۔ اُن کے جواز یا عدم جواز کو تلاش کرتے ہیں اور اپنی تلاش کے نتیجے میں حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں ایسا فیصلہ کرتے ہیں جس سے عوام کا متعلقہ طبقہ بھی مطمئن ہو اور کسی دوسری جگہ سے رد عمل بھی ہو لیکن مجموعی قومی و ملکی مفادات ہمیشہ زیادہ مقدم تسلیم کئے جاتے ہیں۔ جدید جمہوری طرزِ حکومت میں سب سے بڑی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ اس میں ہر کوئی اقتدار میں آسکتا ہے۔ بس وہ انتخابی شرائط پر پورا اُترتا؍ اترتی ہو اور وہ انتخابات کے لیے درکار اخراجات برداشت کرسکتا ؍ کرسکتی ہو۔ ہمارے ملک میں تو اب واجبی تعلیمیافتہ ہونا بھی ضرور نہیں۔ حالاں کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ایک اَن پڑھ یا کم پڑھا لکھا شخص جدید ریاستی اور بین الاقوامی امور کو سمجھ سکے۔ ایسی صورت حال میں ملک کے اندر مضبوط، مخلص اور قابل بیورو کریسی حکمرانوں کو درکار مدد، مشورے اور نگرانی فراہم کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں بیوروکریسی کو مختلف طریقوں سے نہ صرف بہت کمزور کردیا گیا ہے بلکہ ہر خاص و عام کے ذہنوں کو اس کے خلاف کردیا گیا ہے۔ نظامِ حکومت چلانے کے لیے بدکاروں کے ہاتھ رُکوانے پڑتے ہیں اور یہ کام بیوروکریسی ہی کا ہوتا ہے۔ سیاسی سر پھروں کو قابو میں رکھنا اسی بیوروکریسی کو کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے بیوروکریسی کے خلاف جذبات اُبھارنا بہت آسان ہوتا ہے۔ کامیاب حکومت اور حکمران وہ ہوتے ہیں جن کے پاس قابل، مخلص، دیانت دار بیوروکریٹس زیادہ تعداد میں موجود ہوں اور وہ حکمران یا حکومت معاملات ریاست میں اُن سے پوچھتے بھی ہوں۔ ہمارے یہاں یہ خاصیت بہت کم ہے۔ حکمران لوگ اپنے پیاروں یا موقعہ شناس افراد کی جھرمٹوں میں پھنسے رہتے ہیں۔ اس لیے وہ عمدہ اور بروقت مشاورت سے محروم رہتے ہیں۔ ان جھرمٹوں کی وجہ سے وہ بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ دوسرے ماہرین مثلاً میڈیا کے تجزیہ کاروں، تبصرہ نگاروں، سابقہ ججوں، جرنیلوں اور اشرافیہ کے ممبران سے ضروری مدد کشید نہیں کرسکتے۔ ان کے پاس جو سرکاری عملہ جس قابلیت کا ہوتا ہے، وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی حکمران بسا اوقات ایسے کام کر ڈالتے ہیں جو نقصان دہ ہوتے ہیں۔ زمانہ قدیم سے سرکاری محصولات حکومت اور ریاست کے لیے شہ رگ کی حیثیت سے تسلیم کئے جاتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی اور قوانین کو عمدگی کے ساتھ نافذ کرنا بالکل ایسا ہی عمل ہوتا ہے جیسا کہ ایک تجربہ کار کسان یا باغبان اپنے فصل کے ساتھ کرتا ہے۔ فصل کو وقت پر پانی اور کھاد دیتا ہے۔ مویشیوں سے بچانے کے لیے اُس کے گرد اچھا باڑ لگاتا ہے۔ کیڑے مکوڑوں سے اُس کی حفاظت کرتا ہے۔ اُس کے ہاتھ میں ہر وقت مناسب اوزار ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ فصل سے غیر ضروری اور نقصان دہ پودے اکھاڑ پھینکتا ہے یا فالتو شاخیں کاٹتا ہے۔ اب اگر کوئی ان نقصان دہ پودوں اور فالتوں شاخوں سے رائے پوچھے، تو وہ اپنی تعریف اور اہمیت کے ڈھیر کھڑے کر دیں گے۔ یہ کبھی بھی نہ کہیں گے کہ ہم غیر اہم ہیں، لیکن یہ فیصلہ اُس قابل اور محنتی کسان نے کرنا ہوتا ہے کہ اچھی پیداوار کے حصول کے لیے کون اہم اور کون غیر اہم یا نقصان دہ ہے۔ بالکل یہی مثال انسانی معاشرے اور اس کے حکمرانوں کی ہوتی ہے۔ اگر کسان درست کام اور محتاط تراش خراش نہ کرے، تو چند دن میں اُس کا کھیت یا باغ تباہ ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر کسی انسانی آبادی کو یا تو قوانین سے محروم کیا جائے اور یا اُسے قوانین کی حکمرانی سے مبرا یا محروم رکھا جائے، وہ معاشرہ جلد یا بدیر تباہ ہوجاتا ہے۔ خالص ترین پختونوں کے علاقے ملاکنڈ ڈویژن کے ساتھ یہی کچھ کیا گیا ہے، معلوم نہیں کس جرم کی پاداش میں؟ تقسیم ہند کے قانون میں ایسی کوئی شق کا مجھے علم نہیں کہ پاکستان میں یہ علاقے قوانین سے مبرا ہوں گے۔ اس طرح 1969ء میں یہ علاقے جو کہ اندرونی طور پر نیم خود مختار ریاستوں پر مشتمل تھے، کسی معاہدے کے نتیجے میں پاکستان میں مدغم نہیں ہوئے تھے (جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے)۔ لیکن مارشل لا کے تحت یک طرفہ آرڈر کے مطابق ان کو پاکستان میں مدغم کیا گیا تھا، کوئی معاہدہ میں نہ پڑھ سکا ہوں اور نہ کسی واقف حال سے سن سکا ہوں۔ اب اس علاقے کے بورژوا طبقے کو قانون سے مبرا ٹھہرانا موجودہ حکومت کا شرمناک اقدام ہے۔ مسلم لیگ کی تاریخ ناکامیوں کی تاریخ ہے۔ اس جماعت میں روزِ اول سے بڑے بڑے سرمایہ دار، زمیندار اور جاگیردار کرسی نشین چلے آ رہے ہیں بلکہ یہ جماعت ہے ہی جاگیرداروں کی، سرمایہ داروں کی۔ اس لیے اس کی سوچ کی تمام لکیریں سرمایہ دار طبقات کے مفادات کے تحفظ کی طرف جاتی ہیں۔ مزدور، کسان، عام غریب آدمی، ملازمین اور ہنر مند افراد کے مفادات اس جماعت کی ترجیحات میں نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ملاکنڈ ڈویژن کے علاقوں کو ہر قسم کی صنعتی، زراعتی اور سیاحتی ترقی سے محروم کیا گیا اور یہاں معمول کی سفری سہولیات عوام کو نہ دی گئیں اور نظر نہ آنے والے سرمایہ داروں نے یہاں مشکوک گاڑیوں کے ڈھیر لگوادیئے، تو عوام نے ان گاڑیوں میں اپنا پیسہ لگایا۔ چوں کہ یہ ایک غیر پیداواری سرمایہ کاری تھی بلکہ اُلٹا روزانہ کے اخراجات بھی اس کے ساتھ وابستہ تھے، اس لیے اس سرمایہ کاری سے دوسری قباحتوں کے علاوہ سرمایہ کاری کرنے والوں کی محسوس اور غیر محسوس شکل میں اخراجات بھی بڑھ گئے۔ حکومتی اداروں اور پبلک مقامات پر دباؤ بڑھ گیا۔ اس ناجائز درآمد نے اور بھی بہت سارے مسائل پیدا کردیئے۔ اس سے ڈویژن میں مختلف خود ساختہ کاروبار بغیر کسی اجازت کے عروج پاگئے۔ غالباً کسی عربی دانشور کا قول ہے کہ ’’برائی کو اتنا بڑھاؤ کہ بھلائی کا آنا ناممکن ہوجائے۔‘‘ ملاکنڈ ڈویژن کے خواص اور عوام کو قوانین اور اُن کے نفاذ سے اتنا آزاد رکھا گیا کہ اشراف کا یہ علاقہ ایک جنگل بن گیا۔ اس علاقے کا ہر سنجیدہ آدمی اس پر رنجیدہ ہے۔ برائیاں ہم میں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اب یہاں کو مجرم، جرم کو جرم ہی نہیں سمجھتا۔ اس ڈویژن میں عوام بدترین لوٹ کھسوٹ کے شکار ہیں۔ مہنگائی، ملاوٹیں، نمبر دو اور جعلی اشیا کی فروخت اور سینہ زوریاں یہاں ملک کے دوسرے حصوں سے نمایاں طور پر زیادہ ہیں۔ الراشی والمرتشی یہاں نسبتاً زیادہ ہیں۔ خود غرض اور با وسیلہ افراد سرکاری افراد کا تعاون آسانی کے ساتھ حاصل کرسکتے ہیں بلکہ سرکاری افراد اُن کے نزدیک بال برابر بھی نہیں ہوتے۔ یہ جس وقت چاہیں کسی فرض شناس سرپھرے سرکاری ملازم کو ڈویژن بدر کرسکتے ہیں۔ برائیوں میں یہاں کے سیاسی لوگ بھی اس طاقتور اور مالدار طبقے کے حامی پائے جاتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے کوئی بھی صاحبِ بصیرت شخص انکار نہیں کرسکتا کہ عام آدمی کو سہولیات فراہم کرنے کی جگہ خیالی باتوں میں الجھانا اور کسی علاقے کو قوانین سے محروم رکھ کر ’’انارکی‘‘ کے حوالے کرنا بہت بڑے جرائم میں ہیں اور ملاکنڈ ڈویژن کے ساتھ یہ رویہ سب سیاسی جماعتوں نے کیا ہے اور کررہے ہیں جو کہ ٹھیک نہیں۔ وہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں۔

نوٹ : زماسوات ڈاٹ کام کا مصنف کے متن سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Loading...
Back to top button