نئے کالام میں خوش آمدید
نیا پختونخوا نہ سہی” نئے کالام میں خوش آمدید” | ایچ ایم کالامی
حکومتی مسترد شدہ ایک علاقے کا باشندہ ہونے کے ناطے راقم ہمیشہ پاکستانی سیاست دانوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لئے آستین چڑھا کر پیچھے پڑا رہتا ہے۔
سیاسی نقطہ نظر اس مثل تک محدود ہے کہ”اس حمام میں سب ننگے ہیں“ یہی وجہ ہے کہ راقم کو سیاسی دعوٶں میں بڑی دلچسپی بھی ہے،سیاست دانوں کے چھوڑے ہوئے شگوفے اورپھلجڑیوں کو صفحہ قرطاس پر اتارنے اور کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنا راقم اپنا بہترین مشغلہ سمجھتا ہے اور ایسا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، تاکہ بعد میں اطمینان سے حرف بہ حرف پڑھ سن کر طنز و مزاح سے بھرے متن جوڑکر قارئین کے پھیپھڑوں کی غذا کیا جائے۔
آمدم برسر مطلب، سوات کوہستان میں سیلاب کے سات سال گزنے کے باوجود بھی یہاں کا واحد ذریعہ معاش سیاحت چاروں شانے چت پڑی کسی مسیحا کے ہاتھ کا منتطر رہی جو اسے پھر سے سہارا دے کر کھڑا کرسکیں مگر ہمارے حکومتی نمائندےبہتے پانی پر عمارت کی تعمیر جیسے دعوؤں پر اکتفاء کرتے رہے،پرجوش تقاریر اور اخباری بیانات دھڑادھڑ سننے کو ملے مگر عملی کام ندارد!
اربوں روپے کے بیرونی امداد کے باوجود تباہ شدہ انفراسٹکچر بحال نہ ہوسکا اور یوں اے این پی حکومت بھی واپس پویلئین لوٹ گئی، پھر یوں ہوا کہ نئے پاکستان کی تعمیر میں پہلی اینٹ صوبہ خیبر پختونخوا کو نصیب ہوئی اورانصاف کی حکومت قائم ہوئی تویہاں کے باشندے بھی منصفی کی آس لگائے بیٹھے، مگر شومئی قسمت کہ امیدیں بھر نہیں آسکی۔
حتی کہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا پرویز خٹک اور عمران خان صاحب نے سوات کی وادی کالام کا پہلا دورہ بھی کیا اور بڑے بڑے وعدے کرچکے چلے گئے مگر”وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوسکے“ یہاں کے سادہ لوح باشندوں کو مایوسی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا۔
مایوسی کی اتھا گہرائیوں میں ڈوب جانے کے بعد سوات کوہستا کی عوام یہ کف افسوس بھی ملتے رہے کہ ادھر “خیبر پختونخوا بدل رہا ہے” لیکن ان کی تقدیر شائد اس لئے نہیں بدل رہی کہ انہوں نے نئے پختونخوا کی تعمیر میں حکمران جماعت کا ساتھ نہیں دیا تھا اور حسب سابق اے این پی کے امیدوار کو اسمبلی میں بھیج دیا جس کا خمیازہ تو اب بھگتنا ہی پڑے گا “اور یہ کف افسوس ہم اپنے پہلے تحاریر میں بھی ملتے رہے ہیں”
مگرسوات کوہستان کے باشندوں میں امید کی ایک اور نئی لہر تب جاگ اٹھی جب خیبر پختونخوا میں بلدیاتی نظام بن گیا۔ ناظم اعلی سوات محمد علی شاہ خان نے حلف اٹھانے کے بعد پہلی فرصت میں سوات کوہستان کے سیاحتی علاقوں بحرین، کالام، مٹلتان، اتروڑ اور گبرال کا تفصیلی دورہ کیا اور اس بات کا برملا اظہار بھی کیا کہ سوات کو جو اہمیت حاصل ہے وہ سوات کوہستان کےسیاحتی علاقوں کی ہی بدولت ہے اور سوات کوہستان کی سیاحت کو پھر سے پروان چڑھانے کے بلند بانگ دعوے کرکے چلے گئے مگر وہ دعوے بھی بعد میں صرف ہمارے لئے پرمزاح تحریروں کے علاوہ کچھ کام نہ آسکے۔
پھر دوسری دفع کا ذکر ہے کہ وزیر اعلی پرویز خٹک، عمران خان صاحب اور وزیر تعلیم محمد عاطف خان84 میگاواٹ پن بجلی گھر کی سنگ بنیاد رکھنے مٹلتان سوات تشریف فرما چکے۔ہم بھی موقع کو غنیمت جان کر قلم اور کیمرے سمیت وہاں پہنچ گئے اور تمام مہمانوں کی دھواں دھار تقاریر کیمرے میں محفوظ کرتے چلے گئے۔ تاکہ سند رہے اور بعد میں الفاظ کے خوب تیر و نشتر برسا سکے۔
دوران تقریر شائد وزیر اعلی صاحب مقامی باشندوں کے چہروں پر چھائی مایوسی محسوس کرگئے اور انہوں نے اپنے پہلا دورہ کالام کے دوران کئے ہوئے وعدوں کا اعتراف بھی کرلیا جو ان سے ایفاء نہ ہوسکے تھے۔ اور بتایا کہ اس بار کوئی وعدے دعوے نہیں ہوں گے، اپریل کے بعد کالام اور بالائی علاقوں کی ترقی اور خوبصورتی پر کام شروع ہوگا اور آپ دیکھیں گے۔ یوں تقریب ختم ہوئی اور ہم نے بھی یہ شعر گنگناتے ہوئے آفس کی راہ ناپنی شروع کردی کہ،
تڑپ پھر اے دل ناداں کہ غیر کہتے ہیں
اخیر کچھ نہ بنی صبر اختیار کیا
موسم سرما ختم ہوا اپریل شروع ہونے کو تھا ۔ایک دوست نے خوشخبری سنادی کہ ”کالام بیوٹی فیکیشن پروجیکٹ“ کے نام سے اربوں کا منصوبہ منظور ہوچکا ہے، مگر پھر بھی ،
مجھے چھوڑ دے میرے حال پر
تیرا کیا بھروسہ اے چارہ گر
سیاسی دعووں اور وعدوں سے ہمارا تو یقین ہی چھن گیا تھا۔لیکن چند دنوں بعد بھاری مشینریاں کالام میں داخل ہوتے دیکھا توآنکھیں ملتے رہ گئے، یہاں کے یتیم باشندے خوشی سے تن بدن میں نہیں سمانے لگے۔
کام کا باقاعدہ آغازبھی ہوگیا اور پہلی بار کسی سیاسی دوعوٶں بارے ہمارا خیال ”وہم“ ثابت ہوا اور یہاں کے باشندوں کا وہ خیال بھی بدگمانی ثابت ہوئی کہ موجودہ حکومت ہمارا” سیاسی انتقام” لے رہی ہے کیوں کہ ہم نے ان کا ایم پی اے مسترد کردیا تھا۔ اور یہ خیال بھی غلط ثابت ہوا کہ” ہمارے علاقوں کا حسن انصاف والی حکومت کے لئے بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔
بہرحال دیر آئد درست آئد” سوات کوہستان کی سیاحت کو کسی مسیحا کا ہاتھ مل گیا ،مگر اس کے باوجود بھی مختلف مافیاز نے اس منصوبے کے آگے روڑے اٹکانے کی اپنی تئیں بھرپور کوششیں کی مگر صوبائی حکومت کے اس کار خیر کے سامنے ہیچ ہوگئے۔
اور اب کالام بیوٹی فیکیشن پروجیکٹ پر تیس فیصد کام مکمل بھی ہوچکا ہے اور دن رات برق رفتاری سے کام جاری ہے ۔ یہ منصوبہ ایک ارب چھبیس کروڑ روپے سے تکمیل کو پہنچے گا، جس میں وادی کالام کے تمام اندرونی سڑکوں کی تعمیر، ٹورسٹ پوائنٹس، فوڈسٹریٹ، چائلڈ پلے ایریا، فلاور مارکیٹ اور پلے گراؤنڈ سمیت بہت کچھ ہے، اس سے وادی کالام کا بگڑا ہوا حسن سنور جائے گا ، گری ہوئی سیاحت اس طرح کروٹ لے گی کہ ترقیافتہ ممالک کے سیاحتی زون کے مقابلے میں کھڑی رہے گی، سیاحت بحال ہونے سے نہ صرف مقامی لوگوں کی تقدیر بدلے گی، بلکہ ملکی معیشت بھی مستحکم ہوگی۔
اورسونے پر سہاگہ یہ کہ اس منصوبے کا جائزہ لینے کے لئے وزیر اعلی پرویز خٹک اور عمران خان صاحب پھر سے وادی کالام تشریف فرما رہے ہیں، سوچا کیوں نہ اپنی اس ٹوٹی پھوٹی تحریر کے ذریعے چند ایک گزارشات آپ کے گوش گزار کرنے کی جسارت کردوں۔
جناب عمران خان صاحب، وزیر اعلی پرویز خٹک صاحب اور آنے والے دیگر مہمانان گرامی سب سے پہلے تو اہلیان کالام آپ صاحبان کو “نئے کالام” آمد پر خوش آمدید کہتے ہیں۔
راقم آپ کی چند پالیسیوں سے شدید اختلاف رکھتا ہے اور ہمیشہ سے آپ کا ناقد رہا ہے، لیکن سچ اور حق گوئی پر کوئی مبالغہ آرائی نہیں کی جاسکتی۔
آپ صاحبان کے لئے بدست دعا ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو اس طرح کے نیک ارادوں میں کامیابیوں سے ہمکنار کردے۔ آپ صاحبان نے اہلیان کالام کے لئے ایک منصوبہ نہیں دیا بلکہ یوں سمجھیں کہ آپ صاحبان نے”بھوکے، ننگے، غربت و افلاس کے ڈسے حکومتی یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھ لیا، آپ نے ایک حسین و جمیل وادی جس کا حسن سیلاب کے بعد ماند پڑگیا تھا، جس کے بال گنگریالے چکے تھے، جو گرد و غبار میں لت کچرے کے ڈھیر پر رزق حلال چن رہی تھی، آپ صاحبان نے اس وادی کو نہلایا دھلایا اس کے بال سنوارے، اس کو زیور پہنائے اور پھر سے دلہن کی طرح سجایا۔ اگر آپ کی طبعیت پر ناگوار نہ گزرے تو ایک اور عرض گوش گزار کرنا چاہتے ہیں کہ وادی کالام کے ماتھے کا جھومر وادی مٹلتان اور مہوڈنڈ جھیل روڈ کا جو وعدہ آپ صاحبان نے کیا تھا اس کو بھی کو ایفاء کیا جائے۔اس کے علاوہ ایک چھوٹی سی گزارش علاقہ عوام کرتی ہے کہ مٹلتان پن بجلی گھر میں مقامی لوگوں کو روزگار کا موقع دیا جائے اور اس سے پیدا ہونے والی بجلی میں سے چند میگاواٹ سوات کوہستان کو بطور تحفہ دیاجائے تاکہ یہاں کی قیمتی جنگلات کو محفوظ کیا جاسکے۔ اس منصوبے میں ایک معیاری کالج اور ہسپتال کا جو وعدہ کیا گیا تھا اگر ان منصوبوں کو بھی فوری طور پر تعمیر کیا جائے تو صحت اور تعلیم کا انقلاب بھی برپا ہوگا اور یہاں کے باشندے نئے پختونخوا میں سکھ کا سانس لے سکے، اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو
نوٹ : زماسوات ڈاٹ کام کا مصنف کے متن سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔