مہمان کالم

فلسفٔہ قربانی کی حقیقت(آصف تبسمؔ)


فلسفٔہ قربانی اور اس کی حقیقت | محمد آصف تبسمؔ

انسانی تاریخ کے آغاز سے ہی قربانی کا ثبوت ملتا ہے چنانچہ انسانِ اوّل حضرت آدم ؑ کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی کا ذکر قرآن کریم میں کچھ اس طرح ہے ۔’’ اور انہیں آدم کے دونوں بیٹوں کی خبر ٹھیک ٹھیک پڑ ھ سنائیے ، جب دونوں نے قربانی دی تو ایک سے قبول کی گئی اور دوسرے سے قبول نہ کی گئی (اس دوسرے نے ) کہا قسم ہے میں تمہیں قتل کر ڈالوں گا (پہلے نے )کہا(تو بلاوجہ ناراض ہوتا ہے ) اللہ صرف پرہیز گاروں سے قبول فرماتا ہے‘‘ ۔ الہامی اور غیر الہامی کم وبیش تمام مذاہب اور معاشروں میں ’’قربانی ‘‘کا تصور ملتا ہے تا ہم یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی پوری انسانی تاریخ میں ایک منفرد اور بلند مقام رکھتی ہے ، تاریخ کے اوراق اس عظیم قربانی کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔

ہر سال مسلمانان عالم کروڑوں جانوروں کی قربانی کر کے جاں نثاری کے اس بے نظیر واقعہ کی یاد تازہ کرتے ہیں جو آج سے تقریباً سوا پانچ ہزار سال قبل عرب کی سر زمین میں اللہ کے گھر کے پاس پیش آیا تھا کیسا رقت انگیز اور ایمان افروز ہو گا وہ منظر جب ایک بوڑھے اور شفیق باپ نے اپنے نو خیز لخت جگر سے کہا’’ اے پیارے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں ، بتا تیری کیا رائے ہے ؟کہا ابا جان آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے ، آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گئے ‘‘۔اور پھر اخلاص و وفا کے اس پیکر نے خوشی خوشی اپنی معصوم گردن زمین پر اس لیے ڈال دی کہ اللہ کی رضا اور حکم کی تعمیل کیلئے اس پر چھری پھر دی جائے ۔ ایک ضعیف اور رحمدل باپ نے اپنے محبوب لخت جگر کے سینے پر گھٹنا ٹیک کر اس کی معصوم گردن پر اس لیے چھری پھیر دینے کا ارادہ کر لیا کہ اس کے رب کی مرضی اور حکم یہی ہے ۔ اطاعت وفرماں برداری کا یہ بے نظیر منظر دیکھ کر رحمت خداوندی جوش میں آ گئی اور ندا آئی ۔’’ اور ہم نے انہیں آواز دی کہ ابراہیم ، بس تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا ہم وفادار بندوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں ، یقیناًیہ ایک کھلی آزمائش تھی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی قربانیوں کی یادگار ہے ۔ حیات ابراہیم علیہ السلام کو اگر قربانی کی تفسیر کہا جائے تو زیادہ صحیح ہو گا ۔اللہ کی راہ میں قربانی دینے کا مفہوم اگر آپ جاننا چاہیں تو ضروری ہے کہ آپ ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کو پڑھیں ۔ اللہ کی خاطر آپ علیہ السلام ماں باپ کی شفقت ، دولت اور آسائش سے محروم ہوئے ، خاندان اور برادری کی حمایت اور سہارے سے دستبردار ہوئے ، وطن عزیز سے نکلنا پڑا ، آتش نمرود میں بے خطر کود کر اللہ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کیااور اللہ ہی کی رضا اور اطاعت میں آپ علیہ السلام نے اپنی محبوب بیوی اور اکلوتے بچے کو ایک بے آب وگیاہ ریگستان میں لا کر ڈال دیا اور جب یہی بچہ ذرا سنِ شعور کو پہنچ کر کسی لائق ہوا تو حکم ہوا کہ اپنے ہاتھوں سے اس کے گلے پر چھری پھیر کر دنیا کے ہر سہارے اور تعلق سے کٹ جاؤ اور مسلم حنیف بن کر اسلامِ کامل کی تصویر پیش کرو۔اسلام کے معنی ہیں کامل اطاعت، مکمل سپردگی اور سچی وفاداری ۔ قربانی کا یہ بے نظیر عمل وہی کر سکتا ہے جو واقعتا اپنی پوری شخصیت اور پوری زندگی میں اللہ کا مکمل اطاعت گزار ہو ، جو زندگی کے ہر معاملے میں اس کا وفادار ہو اور جس نے اپنا سب کچھ اللہ کے حوالے کر دیا ہو ۔اگر ہماری زندگی گواہی نہیں دے رہی ہے کہ ہم اللہ کے مسلم اور وفادار ہیں اور ہم نے اپنی پوری زندگی اللہ کے حوالے نہیں کی ہے تو ہم محض چند جانوروں کا خون بہا کر ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ نہیں کر سکتے اور اس عہد میں پورے نہیں اتر سکتے جو قربانی کرتے وقت ہم اپنے اللہ سے کرتے ہیں ۔ دراصل اسی واقعہ کو تازہ کرنا اور انہی جذبات کو دل ودماغ پر حاوی کرنا قربانی کی روح اور اس کا مقصد ہے ۔ اگر یہ جذبات اور ارادے نہ ہوں ، اللہ کی راہ میں قربان ہونے کی آرزو اور خواہش نہ ہو ، اللہ کی کامل اطاعت اور سب کچھ اس کے حوالے کر دینے کا عزم اور حوصلہ نہ ہو ، تو محض جانوروں کا خون بہانا ،گوشت کھانا اور تقسیم کرنا قربانی نہیں ہے بلکہ گوشت کی ایک تقریب ہے جو ہر سال ہم منا لیا کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ کر دیا۔ اللہ کو نہ جانوروں کے خون کی ضرورت ہے نہ گوشت کی ، اس کو تو اخلاص و وفا اور تقویٰ و جاں نثاری کے وہ احساسات و جذبات مطلوب ہیں جو آپ کے دل میں پیدا ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ اللہ کو نہ ان جانوروں کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کا خون ، اسے تو صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘(سورۃ حج)

اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو (یعنی عید الاضحی کے دن) فرزندِ آدم کا کوئی عمل اللہ کی قربانی سے زیادہ محبوب نہیں اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، بالوں اور کُھروں کے ساتھ زندہ ہو کر آئے گا اور قربانی کا خو ن زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالی کی رضا اور مقبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے ، پس اے خداکے بندو ! دل کی پوری رضا اور خوشی سے قربانی کیا کرو۔

قربانی در حقیقت اس عہد کی تجدید بھی ہے کہ ہمارا جینا اور مرنا اور در حقیقت پوری زندگی اللہ کے لیے ہے ۔ ہماری زندگی کا مقصد اللہ کی بندگی ہے اور اس بندگی کے اظہار میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنا ہی ہماری زندگی اور بندگی کا شیوہ ہے ہم مسلمان اس لیے ہیں کہ ہماری پوری زندگی تسلیم ورضاسے عبارت ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل اطاعت ، تسلیم ورضا کا اظہار ہی درحقیقت ایمان کا تقاضا اور بندگی کی حقیقی علامت ہے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ قربانی کی حقیقی رُوح کو سمجھتے ہوئے سنتِ ابراہیمی کی پیروی میں ہم اپنے اندر وہ جذبہ پیدا کریں کہ دین کی عظمت و سربلندی ، اسلام کی ترویج و اشاعت ، اسلام کی بقا ، اُمت مسلمہ کے اتحاد و یگانت ، ملک کی سلامتی اور اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے ہم کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ۔ دین کی عظمت اور سربلندی کے لیے اپنا تن ، من ، دھن ، سب کچھ قربان کر دیں گے اور یہی درحقیقت عیدالاضحی کا حقیقی پیغام اور سنت ابراہیمی ، قربانی کا حقیقی تقاضا ہے۔

Related Articles

Loading...
Back to top button