ریکوڈک کیس میں 6 ارب ڈالر جرمانہ، پاکستان نے امریکی عدالت سے رجوع کرلیا
اسلام آباد(ویب ڈیسک) پاکستان نے ریکوڈک کیس میں عائد 6 ارب ڈالر کے جرمانے کو روکنے کے لیے امریکی وفاقی عدالت سے رجوع کرلیا۔ نیوز رپورٹس کی رپورٹ کے مطابق نیویارک سے تعلق رکھنے والی قانونی پبلیکیشن لا 360 نے یہ رپورٹ کیا کہ آسٹریلوی کاپر کمپنی ٹیتھیان کاپر پرائیوٹ لمیٹڈ نے صوبہ بلوچستان میں مسترد شدہ ریکوڈک مائیننگ منصوبے کے تنازع پر گزشتہ برس کیس جیتا تھا جس کے بعد پاکستان کو 6 ارب ڈالر کمپنی کو ادا کرنے کا کہا گیا تھا۔ تاہم اب اس معاملے پر پاکستان نے امریکی وفاقی عدالت سے رجوع کرلیا، جہاں موقف اپنایا گیا کہ ‘فیصلے پر عمل درآمد سے ان کے سیاسی و معاشی استحکام پر تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے’۔
جمعہ کو عدالت میں جمع کرائے گئے ایک مختصر بیان میں، پاکستان نے اعتراض کیا کہ ‘ٹیتھیان کو قانونی چارہ جوئی کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کیونکہ وہ متعدد طریقہ کار کی غلطیوں کی بنیاد پر ایوارڈ (ٹھیکہ) منسوخ کرنے کی کوشش کر رہی ہے’۔ رپورٹس میں بتایا گیا کہ یہ ایوارڈ انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (آئی سی ایس آئی ڈی) کے ذریعہ جاری کیا جانے والا اب تک کا دوسرا سب سے بڑا ایوارڈ ہے اور یہ پاکستان کی سالانہ مجموعی ملکی پیداوار کا 2 فیصد اور اس کے مجموعی مائع غیر ملکی ذخائر کا 40 فیصد ہے۔ واضح رہے کہ آئی سی ایس آئی ڈی ایک بین الاقوامی ثالثی ادارہ ہے جو 1966 میں بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے مابین قانونی تنازعات کے حل اور مفاہمت کے لیے قائم کیا گیا تھا جسے واشنگٹن کے ورلڈ بینک گروپ سے فنڈز ملتے ہیں۔ پاکستان نے اپنے بیان میں کہا کہ ‘ہماری معیشت کو پہلے ہی کئی چیلنجز اور خامیوں کا سامنا ہے اور اس ایوارڈ کے نفاذ سے حکومت اور معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے گزشتہ سال موصول ہونے والے 6 ارب ڈالر کے قرض کی مؤثر انداز میں نفی ہوگی’۔ ساتھ ہی پاکستان نے نشاندہی کی کہ آئی سی ایس آئی ڈی کے سیکریٹری جنرل نے گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں اسے روکنے کی درخواست رجسٹرڈ کرتے ہوئے ایوارڈ کے نفاذ پر حکم امتناع دیا تھا، مزید برآں اس قانونی چارہ جوئی کو روکنے کے فوائد بہت زیادہ ہیں۔
پاکستان نے دلیل دی کہ ‘حکم امتناعی سے نہ صرف اس عدالت کے فیصلے کے نفاذ کے عزم اور آئی سی ایس آئی ڈی کے ایوارڈ کو منسوخ کرنے کے عزم کے درمیان متضاد نتائج کے امکان سے گریز کیا جاسکے گا بلکہ اس سے اپیل اور اس کے بعد ہونے والی قانونی چارہ جوئی کے وقت اور اخراجات کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے’۔ مختصر بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ ٹربیونل نے بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کیا اور نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے جس غلط طریقہ کار پر انحصار کیا گیا اس کی اجازت یا وضاحت طلب نہیں کی گئی تھی اور اس کی وجہ سے روایتی ماڈل سے جتنا تخمینہ سامنے آنا تھا اس سے بہت زیادہ اربوں ڈالر کا اندازہ لگایا گیا۔ پاکستان نے موقف اپنایا کہ ‘ٹیتھیان کو ایوارڈ دیے جانے میں رعایتی نقد کے بہاؤ کے طریقہ کار کا استعمال منصوبے کے لیے متعدد خدشات اور غیر یقینی کا محاسبہ کرنے میں ناکام ثابت ہوا۔ پاکستان نے کہا کہ ‘ہماری معیشت کو پہلے ہی کئی چیلنجز اور خامیوں کا سامنا ہے اور اس ایوارڈ کے نفاذ سے حکومت اور معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے گزشتہ سال موصول ہونے والے 6 بلین ڈالر کے قرض کی مؤثر انداز میں نفی ہوگی’۔ پاکستان نے نشاندہی کی کہ آئی سی ایس آئی ڈی کے سیکریٹری جنرل نے گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں اسے روکنے کی درخواست رجسٹر کرتے ہوئے ایوارڈ کے نفاذ پر حکم امتناعی دیا تھا جبکہ قانونی چارہ جوئی کو روکنے کے فوائد بہت زیادہ ہیں۔
پاکستان نے دلیل دی کہ ‘حکم امتناعی سے نہ صرف اس عدالت کے فیصلے کے نفاذ کے عزم اور آئی سی ایس آئی ڈی کے ایوارڈ کو منسوخ کرنے کے عزم کے درمیان متضاد نتائج کے امکان سے گریز کیا جاسکے گا بلکہ اس سے اپیل اور اس کے بعد ہونے والے قانونی چارہ جوئی سے وابستہ وقت اور اخراجات کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے’۔ اس کے علاوہ اندازہ لگائے گئے نقصانات کان (مائن) کے لیے 56 سالہ آپریٹنگ دورانیے کے حساب سے تھے جبکہ منصوبے کی کوئی لیز اور اجازت نامہ پاکستانی حکام کی جانب سے جاری نہیں کیا گیا تھا. پاکستان نے آئی سی ایس آئی ڈی کو بتایا کہ پیش کردہ منصوبہ معاہدے کی بنیاد پر تھا جو پاکستانی قوانین کے خلاف تھا جس کی وجہ سے ٹیتھیان کاپر کمپنی نقصانات کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ علاوہ ازیں مذکورہ معاملے پر رائے حاصل کرنے کے لیے دونوں اطراف کے اٹارنیز سے رابطہ نہیں ہوسکا ہے۔ واضح رہے کہ ٹیتھیان کاپر کمپنی کی انتظامیہ نے 11 ارب 43 کروڑ روپے کے نقصانات کا دعویٰ کیا تھا۔ کمپنی کی جانب سے یہ دعویٰ بلوچستان حکومت کی جانب سے کمپنی کے لیے لیزنگ درخواست مسترد ہونے کے بعد آئی سی ایس آئی ڈی میں 2012 میں دائر کیا گیا تھا۔
جس کے بعد پاکستانی حکومت اور عالمی کمپنی کے درمیان یہ کیس 7 سال تک جاری رہا تھا۔ ٹی سی سی نے کیس 12 جنوری 2012 میں دائر کیا تھا جبکہ آئی سی ایس آئی ڈی نے اس کے لیے ٹریبیونل 12 جولائی 2012 کو قائم کیا تھا۔ واضح رہے کہ ریکو ڈک جس کا مطلب بلوچی زبان میں ‘ریت کا ٹیلہ’ ہے، بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ایک چھوٹا گاؤں ہے جو ایران اور افغانستان سرحد کے قریب واقع ہے۔
ریکوڈک دنیا میں سونے اور تانبے کے پانچویں بڑے ذخائر کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ جولائی 1993میں اُس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے ریکوڈک منصوبے کا ٹھیکہ آسٹریلوی کمپنی پی ایچ پی کو دیا تھا۔ بلوچستان کے 33 لاکھ 47 ہزار ایکڑ پر واقع اس منصوبے کا معاہدہ صرف ڈرلنگ کے لیے ہوا تھا لیکن آسٹریلوی کمپنی نے حکومت بلوچستان کو اعتماد میں لیے بغیر مزید کام کرنے کے لیے اطالوی کمپنی ٹیتھیان سے معاہدہ کرلیا تھا۔ آسٹریلوی کمپنی نے کوشش کی تھی کہ گوادر پورٹ کے ذریعے ریکوڈک کا سونا اور تانبہ کینیڈا، اٹلی اور برازیل کو فروخت کرے جس سے بلوچستان کو مجموعی آمدنی کا صرف 25 فیصد حصہ ملنا تھا۔ تاہم بلوچستان حکومت نے پی ایچ پی کی جانب سے بے قاعدگی کے بعد معاہدہ منسوخ کردیا تھا، بعد ازاں صوبائی حکومت نے 2010 میں یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ صوبائی حکومت اس منصوبے پرخود کام کرے گی۔ علاوہ ازیں جنوری 2013 میں اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بلوچستان حکومت اور آسٹریلوی مائننگ کمپنی کے درمیان ریکوڈک معاہدے کو ملکی قوانین کے منافی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا تھا۔