حقوق سے محروم بچے۔۔۔؟؟؟
تحریر: ناصر عالم
سوات میں ہیومن رائٹس اور چائلڈرائٹس کے نعرے تو بہت لگ رہے ہیں مگر اس حوالے سے تاحال عملی کام کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آیا البتہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں بلکہ اس کی دھجیاں اڑانے کا سلسلہ قدم قدم پر نظرآرہا ہے جو نہ صرف اس حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں بلکہ حکومتوں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے،اس وقت سوات میں لاکھوں معصوم بچے بنیادی حقوق سے محروم ہیں جس کے سبب یہ بچے تعلیم کے حصول اور کھیل کود کاقیمتی وقت محنت مزدوری اور مشقت کرنے میں گزارنے پر مجبورہیں،کوئی بھی ذمہ دار آکرتو دیکھے انہیں سوات کے بڑے شہر مینگورہ سمیت دیگرعلاقوں میں پھول سے بچے صبح سے لے کر رات گئے تک ورکشاپوں،ہوٹلوں،پکنک سپاٹس پرمشقت اورٹرانسپورٹ آڈوں میں گاڑیاں صاف کرتے نظرآئیں گے جس کے بدلے میں انہیں ملتا کیا ہے،اس قدر کم معاوضہ جس سے ان کے گھروں کاایک وقت کا چولہا بمشکل جلتاہے،یہ مجبوراور مشقت کرنے والے بچے جب اپنے ہم عمروں کو سکول جاتے یاکھیلتے کودتے دیکھتے ہیں توان کے احساسات کیاہوں گے،ظاہری بات ہے کہ ان کادل پڑھائی اورکھیل کود کے لئے تڑپے گایہ وہ وقت اور لمحات ہوتے ہیں جب یہ بچے احساس کمتری،احساس محرومی اور دیگر نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ایسے میں ان کا رجحان منفی سرگرمیوں کی طرف چلاجاتا وہ منشیات کے بھی عادی ہو جاتے ہیں مگر کیااس پرتاحال کسی تنظیم یا حکومت نے کوئی توجہ دی ہے؟ شائد توجہ دی ہو مگر اہمیت نہیں دی ہوگی،آج کے ان بچوں سے قوم کی متعدد امیدیں وابستہ ہیں،قوم پُرامید ہے کہ بڑے ہوکر یہ بچے کل ملک وقوم کی تعمیروترقی اور خوشحالی میں بھرپور کرداراداکرنے سمیت معاشرے کا بوجھ بھی کم کریں گے مگرورکشاپوں اور دیگر مشقت والی جگہوں پر کام کرنےاور اس ماحول میں پلنے بڑھنے والے یہ بچے بڑے ہوکرکیا قوم کی امیدوں پر پورا اتریں گے؟ہرگز نہیں بلکہ وہ تو معاشرہ کابوجھ کم کرنے کی بجائے خود معاشرہ پر بوجھ بن جائیں گے،ابھی چند دن ہی کی تو بات ہے رات کومینگورہ میں سڑک کنارے دو پھول سے بچوں کوبینچ پربیٹھے لوگوں کے سامنے چھولے اور لوبیا کے پلیٹ رکھتے ہوئے دیکھاجنہوں نے پوچھنے پر بتایاکہ وہ یہاں پر چھولے فروخت کرنے والے اُس شخص کے ساتھ صبح سے لے کر رات گئے تک کام کرتے ہیں جن میں سے ایک کودن بھر کی محنت کی 80 اور دوسرے کو50روپے مزدوری ملتی ہے ان چندروپوں کے علاوہ ان بچوں کو کچھ نہیں ملتا یہاں تک کہ بھوک لگے تو وہ ڈیوٹی کے دوران بازارسے کھانے کی کوئی سستی چیز خرید کر کھالیتے ہیں،دونوں بچوں میں سے ایک کا باپ دل کے مرض میں مبتلا ہےجو کئی سال سے بستر پرپڑاموت وزندگی کی کشمکش میں مںتلا ہے اور دوسرے بچے کاباپ مزدور تھا،افسوس تو اس بات کا ہوا کہ کھانا فروخت کرنے والے جس شخص کے ساتھ یہ بچے کام کرتے ہیں وہ انہیں ایک وقت کا کھاناتک نہیں دیتا,یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے یہاں پر تو معصوم بچوں سے دن رات بلکہ بعض مقامات پر مسلسل کئی کئی دنوں تک مشقت لی جاتی ہے مگر انہیں ان کی محنت کی مناسبت سے معاوضہ نہیں ملتایہ صرف سوات کی بات نہیں بلکہ ہمارے یہاں ہرجگہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بچوں کی مشقت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے جس کی روک تھام کے نام پر متعددتنظیمیں موجود ہیں مگر ان کی جانب سے اس ضمن میں کسی قسم کی کاعملی اقدام یاکام سامنے نہیں آیاالبتہ یہ تنظیمیں انسانی حقوق کے حوالے سے بڑے بڑے ہوٹلوں میں سیمیناراور ورکشاپ کرتی ہیں جہاں پر شرکاء کو نہ صرف انواع واقسام کے کھانے کھلائے جاتےہیں بلکہ جاتے وقت انہیں ٹی اے ڈی اے کے نام پر لفافوں میں بند رقم بھی جاتی ہیں جس سے اپنے جائز حقوق کے لئے ترستے لوگوں کوتو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا البتہ اس سے شرکاء خوب مستفید ہوتے ہیں،یہ تنظیمیں انسانی حقوق کے نام پرجتنا فنڈ لیتی ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے تاہم اس میں سے کچھ رقم سیمیناروں،ہوٹلوں کے اخراجات اورشرکاء کے ٹی اے ڈی اے پر خرچ کرکے خودکو اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ سمجھنے لگتی ہیں اور یوں باقی فنڈ بلکہ بھاری رقم کہیں غائب ہوجاتی ہے،سوات میں بھی انسانی حقوق کاعالمی دن منایاجاتاہے،خواتین اور بچوں کے حقوق کے بارے میں شعوراجاگرکرنے کے حوالے سے بھی واک اور ریلیاں ہوتی ہیں،اخبارات میں بڑے بڑے مضامین اور بیانات بھی چھپتے ہیں،اس حوالے مباحثے بھی ہوتے ہیں،شعلہ بار تقاریر بھی کی جاتی ہیں،انسانی حقوق کی پاسداری کی ترغیب بھی دی جاتی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی کی جاتی ہیں،اسے ہماری بدقسمتی ہی کہی جاسکتی یے کہ حکومتوں کے ہوتے ہوئے بھی یہاں پر انسانی حقوق کی پاسداری اورحفاظت این جی اوز کےسپرد کردی گئی ہے جو رہبری کی بجائے رہزنی کا کردارادا کررہی ہیں، انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ مشقت والی جگہوں پر معصوم بچوں کی زندگی سنور رہی ہے یابگڑ رہی ہے۔
نئی نسل کوضائع ہونے سے بچانے ،اسے روشںن اور تابناک مستقبل دینے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیو کاسلسلہ بند کرانے کے لئے ایک موثرپروگرام ترتیب دینا اور انسانی حقوق کے نام پر اب تک جتنی تنظیموں نے فنڈ لے کر ہڑپ کیا ان کا کڑا احتساب کرنابھی حکومت کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہیں لہٰذہ اس اہم ذمہ داری کو پوراکرنے میں حکومت کو مزید دیر نہیں کرنی چاہئے۔