زائد وناجائز منافع خوری مگر کب تک ؟؟
ایشیا کے سوئٹزرلینڈ ضلع سوات میں عام دنوں میں خودساختہ مہنگائی ،زائد منافع خوری،ناقص اورغیر معیاری اشیائے خوردونوش کا کاروبار جاری رہتاہے اورکاروباری لوگ من مانے نرخوں پرناقص اشیاء فروخت کرنے اورلوگوں کو لوٹنے میں مصروف رہتے ہیں مگر رمضان کے بابرکت مہینے میں یہ سلسلہ کافی تیز ہوجاتا ہے ،اس سال بھی ماہ رمضان کے آتے ہی سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سمیت ضلع بھر میں زائد اورناجائز منافع خوروں نے تمام تر اشیائے خوردونوش کے من پسند اور من مانے نرخ مقررکرکے روزہ داروں کو سخت پریشانی میں مبتلا کردیا ہے ،اس وقت تمام تر اشیائے ضروریہ کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے ہیں اس صورتحال کے سبب عوام کی قوت خرید جواب دینے لگی ہے ،بازاروں میں آئے ہوئے لوگوں کاکہناہے کہ رمضان رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے جس کے دوران اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں اس قد رکمی کی ضرورت تھی کہ ہر عام آدمی اسے بآسانی خرید سکتا مگر مقام افسوس ہے کہ ایسانہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس نرخوں میں خوساختہ اضافہ کردیا گیا ،اسی طرح بعض لوگوں نے بتایا کہ بازارمیں اشیائے ضروریہ کے بے قابو نرخ دیکھ کر شائد ہم خریداری کئے بغیر گھر چلے جائیں،ضلع سوات میں اشیائے خوردونوش کے نہ صرف من مانے نرخ چل رہے ہیں بلکہ یہاں پر غیر معیاری ،ناقص اور مضر صحت اشیاء کا کاروبار بھی عروج پر ہے ،بازاروں میں پکی پکائی چیزیں کھلے آسمان تلے پڑی رہتی ہیں جن پر دن بھر دھول اورگردوغبار پڑرہاہے جونہ صرف مضر صحت بن جاتی ہیں بلکہ زہر میں تبدیل ہوجاتی ہیں جس کے استعمال سے انسان کئی قسم کے امراض کا شکارہوسکتا ہے ،غذاکے نام پر فروخت ہونے والے اس پکے پکائے زہر میں قیمہ،نہاری،گوشت ،چھولے،پکوڑے،چٹنی،سموسے،سوئیاں ،سالن،دودھ،دہی،تکے،سوپ،مرغیاں وغیرہ سرفہرست ہیں،رمضان کے دوران عوام کو روزمرہ اشیائے خوردونوش کی معیاری نرخوں پر دستیابی یقینی بنانے کیلئے رمضان المبارک سے قبل ضلعی انتظامیہ ،پرائس ریویو کمیٹی ،محکمہ فوڈ کے ذمہ داروں ،تاجرراہنماؤں اورعوامی نمائندوں کو منصوبہ بندی کرنی چاہئے تھی مگر پلاننگ اورچیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے سبب رمضان المبارک کے آتے ہی کاروباریوں نے اشیائے خور و نوش کوذخیرہ کرنے سمیت زائدمنافع خوری بھی شروع کردی ہے، مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان المبارک میں ذخیرہ اندوزوں نے عوام کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھانے کیلئے اشیائے خورونوش کی ذخیرہ اندوزی کی جاتی ہے اوربعد میں وہی چیزیں مرضی کے نرخوں پر فروخت کی جاتی ہیں۔
ہر سال رمضان کے موقع پر مہنگائی عروج پر پہنچ جاتی ہے اور عام آدمی روزمرہ استعمال کی اشیاء ضروریہ بمشکل خرید پاتا ہے ،حکومت اور انتظامیہ رمضان سے قبل اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے بہترین پلان بنائے تاکہ عوام کو سہولت ہو،دوسری جانب سیاسی و سماجی لوگوں کا کہنا ہے کہ بعض غیر مسلم ممالک مسلمان شہریوں کو رمضان کے بابرکت مہینے میں اشیائے خورونوش پر خصوصی رعایت دیتے ہیں جبکہ کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ بعض غیر مسلم لوگ مسلمانوں کیلئے خصوصی افطار کا انتظام بھی کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہم نے رمضان المبارک کو پیسہ جمع کرنے اورکمانے کا مہینہ بنایا ہوا ہے، عام دنوں میں کم پیسوں سے ملنے والی چیزوں کی قیمت رمضان کے مہینے میں بڑھ جاتی ہے، ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ مقامی دکاندار رمضان المبارک میں عام لوگوں کو سہولیات دینے کیلئے ایسے اقدامات کریں جو دوسروں کیلئے مثال ہوں، مقامی لوگ کہتے ہیں کہ رمضان المبارک میں پانچ چھ ہزار روپے پر کام کر نے والے عام مزدوروں کے گھر کا چولہا بمشکل جلتا ہے مگر دوسری طرف اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ کے بعد خریداری کرنا بھی مشکل ہوجاتی ہے اگر ضلعی انتظامیہ اس سال سستی قیمتوں پر مختلف مقامات پر اشیائے خورونوش کے سٹال لگائے تو مشکلات تھوڑے کچھ ہوں گی،مقامی لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ رمضان المبار ک میں ضلعی انتظامیہ کا کردار صرف اخباری بیانات تک محدود ہوجاتا ہے، قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے کسی قسم کے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے،پرائس ریونیو کمیٹی کی کاکردگی بھی نہ ہونے کے برابر ہے،ہر سال ذخیرہ اندوز رمضان کے مبارک مہینے میں غریب عوام کی چمڑی ادھیڑ کر لاکھوں کماتے ہیں، بازار کے صدر و دیگر عہدیدار عام لوگوں کی مشکلات کو مدنظر رکھ کر دکانداروں کوہدایت دیں کہ وہ عوام کو سستے اورمناسب نرخوں پر اشیا ئے خوردونوش فراہم کریں جبکہ ساتھ ساتھ انتظامیہ بھی اس حوالے سے موثر اقدامات اٹھائے تو عوام کو مناسب نرخوں پر معیاری اشیائے خوردونوش میسر آسکتی ہیں۔