ہمیں بھی عیدی چاہیے
تحریر:علی جان
رمضان کا آخری عشرہ بھی اپنے اختتام کی طرف ہے آخری عشرہ میں ہمارے لیے بہت سے انعامات ہیں مگرآخری عشرہ میں لوگوں کو عیدکی پڑجاتی ہے اور اللہ سے دور ہوکے دنیاسے دل لگالیتے ہیں اور مسجدیں دیران ہونے لگتی ہیں اور بازار وں میں رونقیں بڑھ جاتی ہیں اصل عیدتو انکی ہے جنہوں نے عبادات کیں اور انہی کیلئے بخشش ہے کیونکہ عیدالفطررمضان کا ثمرشیریں ہے رمضان کے اختتام پر اللہ پاک بہت خوش ہوتا ہے اور فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ مزدوروں کیلئے انعام کیا ہے توفرشتے جواب دیتے ہیں کہ مزدور کو اسکی مکمل مزدوری مل جائے یہ انعام ہے تواللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ میرے بندوں نے میرے مقررکردہ فرائض کو بخوبی نبھایا ہے تو اب وہ عیدکے دن عیدگاہوں کی طرف رخ کریں گے قسم ہے مجھے اپنے جلال کی،اپنے رحم کرم کی اپنی عزت کی،اپنی شان کی اپنی رفعت مکاں کی وہ جو بھی دعا مانگیں گے میں ضرورقبول کروں گا اور فرمائیں گے جامیرے بندے لوٹ جا میں نے تمہیں بخش دیا اورتیرے گناہوں کونیکیوں میں بدل ڈالا۔عیدسے پہلے فطرانہ دینا تولازمی ہے کوشش کریں اسکے علاوہ عیدی کے طورپرغرباء میں راشن اورنقدی بھی پہنچائیں تاکہ وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے بناعید کی خوشیاں منا سکیں اس سے وہ آپکو دعائیں بھی دیں گے اور انکی عزت بھی مجروح نہ ہوگی ماہ رمضان جس طرح شروع ہوتا ہے ہرکوئی اس ماہ مقدس کی رحمت کے صدقے اپنے ہاتھ کھول دیتا ہے اور زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرتا ہے رمضان کو غم خواری ہمدردی اور صبرکا نام دیا گیا ہے مگرہمارے اندر ہرعیب ہربرائی شامل ہے ہم نے رمضان المبارک میں ملاوٹ شدہ چیزیں فروخت کیں،مہنگائی کو فروغ دیا،سرعام لوٹ مارکی دین ودنیا کی تجارت محذاپنی تجوریاں بھرنے کیلئے کیں بہرحال عیدکا دن آپہنچا اور وہ انعام واکرام ہمیں ملیں گے جواللہ پاک نے وعدہ کیا ہے اس دن ہرکوئی ایک دوسرے سے خوشی خوشی گلے لگ کے ملتا ہے اور کئی عرصہ سے نہ بولنے والے بھی غصہ ناراضگی بھول کر گلے لگ رہے ہوتے ہیں مسافرگھروں کولوٹ آتے ہیں اورگھرکی ویرانیاں رونقوں میں بدل جاتی ہیں حضورنبی کریمﷺ نے فرمایا یہ صرف عید نہیں بلکہ مسلم معاشرے میں خاندانی ملی اور قومی سطح پر قربتوں کاذریعہ ہے ۔انسانی تاریخ پرطائرانہ نظرڈالی جائے تو کوئی بھی ایسا دور نہیں جوعید سے آشنا نہ ہوہردورمیں عیدمنائی گئی ہے ہاں البتہ اس کی کیفیت و اہمیت میں فرق ضرورہوتا ہے ایک روایت میں آتا ہے کہ عالم میں پہلی عیدتب منائی گئی جب حضرت آدم علیہ سلام کی توبہ قبول ہوئی دوسری عیدتب منائی گئی جب ہابیل اور کابیل کی لڑائی کا خاتمہ ہوا حضرت ابراہیم کی امت نے تب عیدمنائی تھی جب حضرت ابراہیم علیہ سلام کو نمرود نے آگ میں ڈالا اور آگ گلزار بن گئی اور آپ باسلامت آگ کے شعلوں سے باہرآگئے حضرت موسیٰ کی امت نے تب عیدمنائی جب آپ علیہ سلام نے جب بنی اسرائیل کوظالم فرعون سے نجات دلائی اسی طرح حضرت عیسٰی کے پیروکار آج بھی انکی مناسبت سے عیدمناتے ہیں اسی طرح انبیاء نے بھی عیدیں منائی ہیں جیساکہ حضرت یونس علیہ سلام نے مچھلی کے پیٹ سے باہرآنے پرعیدمنائی مگرہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺنے دوعیدوں کوپسندفرمایا ہے اورجب پہلی بارمسلمانوں پرروزے فرض ہوئے توآپ ﷺنے ماہ صیام کے آخری عشرہ میں مدینہ کے انصارکومخاطب کرکے فرمایا ہرامت کیلئے عیدیں ہوتی ہیں تم بھی ہرسال شیان وشان سے عیدالفطراور عیدالضحیٰ منایا کرو گھروالوں اور بچوں کیلئے عیدکی خریداری میں کوئی ممانعت نہیں بلکہ یہ ہمارے بڑوں کی ذمہ داری ہے رکیے !غورکریں آپ کے نزدیک ایسے بھی خاندان ہونگے جن کے پاس پہننے کیلئے کپڑے کیا ہوسکتا ہے کھانے کیلئے بھی کچھ نہ ہوتو بہترہے شاہانہ خرچیوں کے بجائے سادگی سے عید کریں اور جتنا زیادہ ہوسکے اپنے ہمسایوں اور غرباء کا خیال کریں کیونکہ ہمارے چاروں طرف غربت اور غریبوں کے جال بجھے ہوئے ہیں جن کودووقت کی روٹی مشکل ہوتی ہے اور مہنگے کپڑے اور جوتے تو خواب سے کم نہیں تو بہترہے جولوگ زیادہ کپڑے لیتے ہیں زیادہ خرچ کرتے ہیں توانہیں یادرکھنا چاہیے آخرت کے دن یہ کپڑے جوتے کام نہیں آئیں گے جو آپ صدقہ خیرات کرجائیں گے وہی آپ کے کام آئے گا عیدکے دن یہ غریب لوگ بھی اس آس میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ اللہ پاک کسی کوہمارے لیے بھی بھیجے گا غریبوں کی مدد کریں پھردیکھیں آپکی زندگی میں کس قدرسکون اطمینان آتاہے کیونکہ غریبوں،مسکینوں کی مددکرنے سے آتا ہے اسی لیے ہمیں اپنی شاہ خرچیوں کے بجائے حضورپاک ﷺ کی امت ہیں یہ ثابت کرنا ہے اسی لیے ہمیں غریبوں مسکینوں بیواؤں یتیموں کا خاص خیال رکھتے ہوئے انہیں بھی اپنی خوشیوں میں شامل کرنا چاہیے تاکہ ہمارا مستقبل جنت ہو