ونسٹن چرچل کے بقول: ’’یہ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت بدترین نظامِ حکومت ہے سوائے ان نظاموں کے جو ابھی تک آزمائے گئے ہیں۔” پاکستان کا جمہوری نظام شروع دن سے ہی گومگو والی کیفیت کا شکار ہے۔ بدقسمتی سے جب قائداعظم رحمتہ الله علیہ نے وزارت عظمیٰ کے بجائے گورنر جنرل کے عہدے کا انتخاب کیا، تب سے اداروں کے بجائے شخصیات کی اہمیت بڑھنے لگی۔ تین مارشل لاؤں سے ہمارے سیاست دانوں نے کچھ نہیں سیکھا لیکن یہ موقع ان کو مشرف کے مارشل لا نے فراہم کر دیا اور دہائیوں کے سیاسی حریف پہلی بار ایک میز کے گرد جمع ہوگئے۔ جمہوریت کی بحالی کی تحریک بینیظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے وکلا کی مدد سے منطقی انجام تک پہنچائی اور پہلی بار ایک ڈکٹیٹر کو عوامی رائے کے سامنے سرِ تسلیم خم کرکے اقتدار سویلین قیادت کو سونپنا پڑا۔ عوامی بالا دستی کی جو موہوم سی امید ہمارے دلوں میں جاگ اٹھی تھی، وہ میمو کیس، یوسف رضا گیلانی کی نااہلی، مشرف صاحب کی جعلی بیماری اور میاں نواز شریف کی نااہلی سے دم توڑ گئی
ان سب واقعات پر ایک ہی ادارے کا سایہ ہے اور وہ ہے “عدلیہ۔” بدقسمتی سے جمہوریت کی بالادستی کی جو جد و جہد چل رہی تھی اس میں سے کسی کو پتا نہیں تھا کہ اس سارے عمل میں نظام (Militarization) سے (Judicialization) کے طرف کوچ کر جائے گا- پہلے ڈکٹیٹر، آئین کو معطل کرکے پی سی او اور ایل ایف او نافذ کرتے تھے اور صدور صاحبان بی 2-58 کا سہارا لیتے تھے۔ اب وہی کام آئین کے دوسرے آرٹیکلز جیسا کہ 62,63 سے لیا جا رہا ہے۔ واردات وہی ہے لیکن صرف طریقہ کار بدلا گیا ہے۔ ہمارے ملکی نظام میں جس خطرناک چیز نے جڑیں پکڑی ہوئی ہیں، وہ یہ ہے کہ بڑی چالاکی سے احتساب کے نعرے کو سیاستدانوں اور خاص کر وزرائے اعظموں سے جوڑا گیا ہے اور پاکستانی عوام کی نظروں میں سیاستدانوں کو ایک منفی کردار کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔
جمہوریت کی بحالی کی تحریک بینیظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے وکلا کی مدد سے منطقی انجام تک پہنچائی اور پہلی بار ایک ڈکٹیٹر کو عوامی رائے کے سامنے سرِ تسلیم خم کرکے اقتدار سویلین قیادت کو سونپنا پڑا۔ عوامی بالا دستی کی جو موہوم سی امید ہمارے دلوں میں جاگ اٹھی تھی، وہ میمو کیس، یوسف رضا گیلانی کی نااہلی، مشرف صاحب کی جعلی بیماری اور میاں نواز شریف کی نااہلی سے دم توڑ گئی۔
اب آتے ہیں حل کی طرف، پاکستان کی بقا ایک مضبوط جمہوری نظام میں پوشیدہ ہے اور اس کے لئے اداروں کو ایک دوسرے کا احترام سیکھنا ہوگا۔ نیز ہمارے نصاب میں جمہوریت کی بالا دستی پر مضامین کو شامل کرکے آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں جمہوریت کیلئے احترام پیدا کرنا ہوگا۔ حالیہ دنوں میں چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی صاحب نے ایک گرینڈ انسٹیٹیوشنل ڈائیلاگ کی تجویز دی ہے جس کا آرمی چیف قمر جاوید باجوہ صاحب نے بھی مثبت جواب دیا ہے اور عوامی، سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بھی اس کو کافی سراہا گیا ہے۔ ایسے اقدامات تواتر کے ساتھ ہونے چاہئیں تاکہ ایک مخصوص فورم پہ اداروں کے نمائندے ایک دوسرے کی خامیوں کو سامنے رکھ کر ایک درمیانی حل نکالنے میں کامیاب ہوں۔
حالیہ دنوں میں چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی صاحب نے ایک گرینڈ انسٹیٹیوشنل ڈائیلاگ کی تجویز دی ہے جس کا آرمی چیف قمر جاوید باجوہ صاحب نے بھی مثبت جواب دیا ہے اور عوامی، سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بھی اس کو کافی سراہا گیا ہے۔
ہمارے جمہوری نظام میں عوامی کردار کی وجہ سے بہت بڑی مثبت تبدیلی آسکتی ہے اور وہ تبدیلی کیسے آئے گی؟ اس پہ آئندہ نشست میں بات ہوگی-
نوٹ : زماسوات ڈاٹ کام کا مصنف کے متن سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔