خٹک صاحب کی خوش فہمی

خٹک صاحب کی خوش فہمی | پروفیسر سیف اللہ خان

صوبائی وزیراعلیٰ پرویز خٹک صاحب کافی تجربہ کار سیاسی شخص ہیں۔ ان کو سرکاری محکموں سے واسطے پڑتے رہے ہیں اور وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ بعض بلکہ اکثر سرکاری ملازمین سیاسی حکمرانوں کو خوش رکھنے کیلئے مبالغہ پر مبنی یا جھوٹ الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ بسا اوقات وہ سیاسی حکمرانوں کیلئے جھوٹے نمبر بنانے کیلئے بھی ایسا کرتے ہیں۔ سیاسی حکمرانون کیلئے اگر لکھی گئی تصاویر و عبارات سینئر بیوروکریٹس چیک کرلیتے ہیں، وہ وہ درستگی کردیتے ہیں۔ اگرایسا نہیں ہوتا، تو غلط الفاظ ، فقرے ، یا اعداد حکمرانوں سے کہلوائے جاتے ہیں۔ روزنامہ آزادی مورخہ 27 جولائی 2017ء نے اپنی شہ سرخی ان الفاظ سے سجائی۔ ’’امتحانی نظام سے بوٹی مافیا، سفارش کلچر کا خاتمہ کر دیا ‘‘ (پرویز خٹک)۔ متعلقہ محکمے نے یہ جھوٹ پر مبنی الفاظ وزیراعلیٰ صاحب کے منھ سے ’’للسائل و المحروم‘‘ادارے کی ایک تقریب سے خطاب میں کہلوائے۔ اسی طرح عمران خان صاحب کا یہ اعلان کہ انہوں نے اساتذہ سے تنخواہ کی مد میں ساڑھے انیس کروڑ روپیہ کاٹا۔ اگر عمران خان کی یہ بات درست ہو، تو یہ خطیر رقم ضرور صوبائی بجٹ برائے مالی سال دوہزار سترہ اٹھارہ میں وزیرخزانہ نے شامل کی ہوگی۔ اگر نہیں تو ثابت ہوگا کہ محکمہ نے عمران خان سے جھوٹا فقرہ کہلوایا ہے، یا وہ بڑی رقم صوبائی سرکار کو پہنچی ہی نہیں۔ یہ حقیقت تو سکولوں کے بچے، ان کے والدین، اساتذہ اور سوسائٹی کے عام افراد بلا کسی شک و شبے کے تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں امتحانات میں ہر قسم کی کرپشن پورے زورو شور سے جاری ہے۔ بوٹی (تحریرسے نقل) موبائل فون کے ذریعے نقل، سفارش، نقد اور جنس کی شکل میں رشوت حسبِ سابق عام ہے۔ چند ہفتے بعد بی اے، ایم اے وغیرہ کے امتحانات ہوں گے۔ ہمیں امید ہے کہ خٹک صاحب اپنے الفاظ یا دعوے کا پاس رکھتے ہوئے خاص مخبروں سے حقیقتِ حال ضرور معلوم کروالیں گے۔ ہماری دانست میں ان سے مذکورہ بالا الفاظ صرف جھوٹے دعوے کیلئے کہلوائے گئے ہوں گے۔ حقیقتِ حال بالکل برعکس اور پہلے جیسی ہے۔ نقل کا مکروہ رواج 1972ء سے زیادہ شدت کے ساتھ پروان چڑھا ہے۔ اس سے قبل یہ بہت ہی کم ہوا کرتا تھا۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ سکولز انتظامیہ محکمہ تعلیم اور تعلیمی بورڈز کے عملے ’’دوستی‘‘، ’’ڈوڈی‘‘، ’’دعوت‘‘، ’’مڑئی‘‘، ’’پینڈہ‘‘، ’’میلمستیا‘‘ کے محترم ناموں کے تحت کرپشن کے ساتھ منسلک ہوچکے ہیں۔ کسی امتحانی ہال کا ان لذائذ کے بغیر تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ اگر میرا حافظہ مجھے دھوکا نہ دے رہاہو، تو سنہ 1965ء کے شروع کے مہینوں میں ہم سے بھی ہمارے سکول نے باہر سے آنی والے ممتحن حضرات کی مہمانداری کیلئے پیسے اکھٹے کئے تھے۔ اگلے سالوں میں ہم سے نسبتاً کمزور ساتھی زیادہ نمبرات لیکر میڈیکل اور انجینئرنگ میں چلے گئے، کیونکہ ان کو ہال کے سائڈ روم میں بٹھایاگیا تھا۔ گذشتہ سال مجھے ایک محنتی بچے نے بتایا تھاکہ ڈیوٹی پر مامور ایک استاد صاحب اپنے موبائل فون پر اس کے جواب پرچے سے نقل لے کر ہال میں کسی اور بچے کودیتا تھا۔ چند ہفتے قبل چین کے ایک امتحانی ہال کا منظر ٹی وی پر دکھایا گیا تھا، جس میں بچوں کے ہال میں نگرانی کیلئے ڈرون کیمرہ استعمال ہو رہا تھا۔ بھارت اور دوسرے بیشمار ممالک بھی اس وبا کا شکار ہیں۔ چینی اس برائی کے خاتمے یا کنٹرول کیلئے جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں اور ہمارے بعض ’’مسلمان ‘‘ اس لعنت کے فروغ کیلئے جدید موبائل فونز، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں بڑی عمر کے جنت کے طلبگار لوگ اس برائی کو کندھا دے رہے ہیں۔ امتحان کے دنوں میں نہایت ہی ناقص مواد ہر کتب فروش کے پاس دستیاب ہوتا ہے ۔ یہ لاہور، پشاور وغیرہ سے آتا ہے۔ الحاج اس کو بناتے ہیں۔ الحاج اس کو مارکیٹ کرتے ہیں۔ وزیراعلیٰ صاحب کوئی بھی وعدہ کریں، کوئی بھی دعویٰ کریں، وہ قابل قبول ہوسکتا ہے لیکن محکمہ تعلیم جیسے غلام ، مقید اور مغلوب محکمے میں کسی بھی حکمران کا ہر دعویٰ اسی طرح غلط ہوگا جس طرح وطن عزیز میں بجلی کی چوری کے سدباب کا۔ بچے بچے ہوتے ہیں، وہ اس وقت تک اس لعنت کو پسند کریں گے جب تک اس شعبے سے وابستہ تمام شراکت دار (سٹیک ہولڈرز) اخلاص اور قابلیت کے ساتھ ایک نیا نظام متعارف نہیں کرواتے۔ یہ بین الاقوامی مریض ہے اور اس کیلئے بین الاقوامیسطح پر علاج ڈھونڈنا ہوگا۔ ہمارے والے جیسے بدکردار ماحول کا یہ المیہ البتہ منفرد ہے کہ ہم میں بڑی عمر کے لوگ اس لعنت کو قبول کرتے ہیں۔ نتیجہ، کم معیار، کم تعلیم، کم ترقی اور کم امن وامان۔ ایسے سکولوں کو سب لوگ جانتے ہیں جو بچوں کو نقل کروانے کا باقاعدہ انتظام کر واتے ہیں۔ وہ اپنے پسندیدہ افراد کو اپنے ہالوں میں تعینات کرواتے ہیں، پھر اپنے افراد کو پیپر چیکرز لگواتے ہیں۔ دفتر معاملات کیلئے بھی ان کے وفادار اور تابعدار بابو حاضر ہوتے ہیں۔ فرق صرف پشتو محاورے کے مطابق’’کفر د توانہ پورے دے ‘‘یعنی گناہ اپنی استطاعت تک ہوتا ہے۔ اگر کوئی زیادہ طاقتور سکول ہو، توہ وہ زیادہ ’’سہولیات ‘‘بچوں کو فراہم کروالیتا ہے اور جو جتنا کم طاقت والا ہو، وہ اپنی طاقت کے مطابق۔ بدقسمتی سے اکثر والدین نقل کرنے اور کروانے کو قبول کرتے ہیں۔ انہوں نے مستقبل میں اپنے بچے کو ڈاکو بنانا ہوتا ہے۔ انہیں اچھے کردار اور اعلیٰ شخصیت سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ معاشرے کا رحجان ایسا ہے کہ دولت حاصل کی جائے، خواہ اس کیلئے دو دھ پیتے بچوں یا چارپائی پر پڑے مریض کا خون کیوں نہ کیا جائے۔ ذرائع ابلاغ عامہ کے درست استعمال سے کئی مسائل کو کم یا ختم کیا جاسکتا ہے، لیکن ابلاغ عامہ کے ذرائع پر بھی دانشمندانہ اورقابل و مخلص لوگوں کو ہونا چاہیے۔ ایم سی کیوز نامی ایک لازمی سوال ہر پرچے میں ہوتا ہے، یہ اچھا سوال ہوتا ہے لیکن ہمارے صاحبانِ اختیار نے جعلی بہتر نتائج دکھانے کیلئے اس سوال کو زہرِ قاتل بنادیا ہے ۔ بچے صرف یہ سوال حل کرکے بھی کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس لئے محترم وزیراعلیٰ صاحب کو رب کریم بڑا اجر عطا کرے گا اگر وہ محکمہ تعلیم کو راضی کریں کہ ایم سی کیوز قسم کے سوالات اس پرچے کے کل نمبرات کے پندرہ فیصد سے زیادہ نہ ہوں، اس طرح بچے دوسرے سوالات کیلئے بھی سنجیدہ تیاری کرینگے۔