غریب الوطن

غریب الوطن | ساجد علی سالارزئی

’’دیر ہو رہی ہے، کام کی جگہ پہنچ کر کچھ کھا پی لیں گے۔ کام کی جگہ پہنچ کر کام کی زیادتی کی وجہ سے کھانا بھول گئے۔ سوچا دوپہر میں کھائیں گے۔‘‘ یہ ہے ایک غریب الوطن کی کہانی۔ دوپہر میں بھی اکثر اوقات پیسے بچت کرنے کی غرض سے یہ بھوکے رہ جاتے ہیں۔ آپ جب بڑے لاڈ کے ساتھ ان سے گیلیکسی سیون موبائل کا مطالبہ کرتے ہیں، تو یہ ان کی دو، تین ماہ کی تنخواہ ہوتی ہے۔ اس کو خریدنے کیلئے ان کو بھوکا رہنا پڑتا ہے۔ ان کو اوور ٹائم لگانا پڑتا ہے اور مہینہ بعد اسی موبائل کو ہم ’’سیکنڈ ہینڈ‘‘ کہتے ہیں۔ بریک ٹائم میں کسی کاٹن یا دیوار سے ٹیک لگا کر سو جاتے ہیں۔ خود زمین پر سوتے ہیں، اور آپ ان کی وجہ سے نرم بستروں پر سورہے ہوتے ہیں۔ قارئین، یہ جو ریال و دینار بھیجتے ہیں ناں، وہ دن رات بدن خون پسینہ ایک کرکے کمائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ تھکتے نہیں۔ خالی پیٹھ ان کے حوصلے متزلزل نہیں کرسکتا۔ پچاس ڈگری سنٹی گریڈ گرمی ان کی ہمت کو کچھ نہیں کہہ سکتی۔ کیونکہ ان کو تسلی ہوتی ہے کہ میری وجہ سے میرے بوڑھے ماں، باپ کو تسکین ملتی ہے۔ وہ گھر بھی نہیں آتے، کیوں کہ بہن کی شادی کیلئے کچھ کمانا ہے۔ وہ خوش بھی ہے کہ میری وجہ سے میرا بھائی پڑھ رہا ہے اور اسی لئے وہ حالات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ان کو اپنی بچوں کی یاد بھی ستاتی ہے لیکن گھر بیٹھ کر ان کو بھوکا بھی نہیں دیکھ سکتے۔ سعودی ممالک کی تندور جیسی گرمی میں بیسویں منزل پر بلٹ باندھا ہوا مزدور موت کے سے لڑ رہا ہوتا ہے تاکہ گھر والوں کی آن بان برقرار رہے۔ بدترین اخلاق والا کفیل جب کسی معزز خاندان سے تعلق رکھنے والے مزدور کی عزت خاک میں ملاتا ہے، تو زمین کیوں نہیں ہلتی اس وقت، آسمان کیوں نہیں پھٹتا۔ وہ مزدور کیوں سہتا ہے یہ سب ؟ کیوں کہ وہ اپنے گھر کا واحد کفیل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے گھر کا چولہا جلتا ہے۔ کیونکہ اس کے والدین کی لاج برقرار رہ سکے۔ کیونکہ اس کے بہن، بھائی اور بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔ ستا دہ حوروں دہ جنت وعدی نسیا دی مالہ دلتہ کی سہ راکہ زہ غریب یم پردیس میں رہنے والا کوئی ایسا مزدور نہیں جو غم و فکر سے آزاد ہو۔ کبھی گھر والوں کی فکر، تو کبھی اپنے مستقبل کی۔ کبھی کمپنی کی مصیبتیں، تو کبھی جوازات کی ٹینشن۔ کبھی وطن جانے کی آرزو، تو کبھی کرائے کی تشویش۔ کبھی کمرے سے نکالے جانے کی دھمکیاں، تو کبھی اپنوں کی فرمائشیں۔ یہ سب سوچ سوچ کر ان کا خون جم جاتا ہے۔یہ فکر ان کو اندر سے کھا جاتی ہے ۔ ان مسافروں کا دل بھی کرتا ہے کہ کچھ اچھا کھا پی لیں۔ دل ترستا ہے کہ کے ایف سی برگر، کنگ البیک کباب کھائے یا ریڈ بل پی لے، لیکن گھر کا خیال آتے ہی ان کا جی سیر ہوجاتا ہے۔ جیب اجازت نہیں دیتی۔ بیچارے واپس ہو جاتے ہیں۔ گھر والوں کو پیسے بھیج کر ان کو تسلی ہوتی ہے کہ چلو وہاں پر تو سہولت ہوجائے گی۔ یہ لوگ حالات سے مقابلہ کر کرکے اکثر رات کو کمبل میں رو بھی لیتے ہیں۔ کیا کریں؟ آگ جیسی گرمی میں چمڑا جلا کر اور خون سکھا کر تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ قارئین، اس تحریر کے توسط سے درخواست ہے سب سے کہ پردیس میں مزدوری کرنے والوں سے ایسی فرمائشیں نہ کریں جو اُن کو مزید پریشانیوں میں مبتلا کرے۔ ان کے بھیجے ہوئے پیسوں پہ بدمعاشیاں نہ کریں۔ کیوں کہ ان پیسوں کیلئے وہ اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہیں۔ ان کیلئے بھی کوئی بشارت ہو مولا جن کے پاس خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں