ہڑتال کا فائدہ ہوا یا نقصان؟ | پروفیسر سیف اللہ خان
بدھ اُنیس جولائی 2017ء کو مینگورہ کا پورا بازار سو فی صد بند رہا۔ سنا ہے کہ دوسرے قصبوں اور ملاکنڈ ڈویژن کے دوسرے اضلاع کے بازار بھی بند رہے۔ وجہ محکمہ بجلی کی طرف سے بجلی کی بہت زیادہ بندش تھی اور اس ضمن میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا مقصود تھا۔ سوات کے عوام اور خصوصاً تاجروں کے سرکردہ حضرات مختلف قسم کے اعداد و شمار رکھوانے کے مخالف چلے آرہے ہیں۔ اس لیے صحیح نقصانات کا اندازہ لگانا ممکن نہیں لیکن مینگورہ کے ساتھ اگر پورے ڈویژن کے شہر اور قصبے ہڑتال میں شریک ہوئے ہوں، تو یقیناًاربوں روپوں کا لین دین متاثر ہوا ہوگا۔ ایک دکاندار اگر دکان بند رکھے، تو بھی اُس کے پیچھے اُس دن کے لیے مختلف کرائے، مختلف بلز اور مختلف اخراجات آتے لیکن ہڑتال کی وجہ سے اُسے جو کمائی ہوتی ہے، وہ نہیں ہوپاتی۔ یوں اخراجات نقصان کی شکل میں ہوتے ہیں۔ اس طرح کم از کم کئی کروڑ روپوں کا ہڑتال میں شریک لوگوں کا نقصان ہوگیا۔ اس میں اُن روزانہ کی بنیاد پر مزدوری کرنے والوں کا خرچہ شامل نہیں جو ہڑتال کی وجہ سے مزدوری کرنے سے محروم ہوتے ہیں۔ البتہ بجلی محکمے کو بچت ضرور ہوگئی کہ بازاروں اور کارخانوں، ہوٹلوں وغیرہ کی بندش سے بجلی خرچ نہ ہوئی۔ تاجر لوگ بہت ذہین ہوتے ہیں۔ وہ نفع و نقصان کے طریقے خوب جانتے ہیں اور ہمیں گمان ہے کہ اُن کے لیڈرز اور سردار اُن سے بھی زیادہ ذہین ہوں گے۔ اس لیے انہوں نے کافی احتیاط کے ساتھ ہڑتال کروانے کا فیصلہ کیا ہوگا جو ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ شک ہے کہ اس ہڑتال کے پیچھے سیاسی مقاصد تھے۔ اب تو یہ معاملہ ہر سنجیدہ شخص سمجھنے لگا ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ بجلی کی کمی نہیں بلکہ کچھ اور ہے، جس میں سر فہرست عوام کے اندر غم و غصہ کو بڑھاکر اور برداشت و صبر و سکون کو برباد کرکے خانہ جنگی (خاکم بدہن) برپا کروانا ہے۔ محکمہ بجلی کے مخصوص ذمہ داروں نے نامعلوم دشمن سے مل کر وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اسی محکمے نے ملک کی صنعت، تجارت اور زراعت، تعلیم، صحت اور کاروبار کو شدید ترین نقصانات پہنچائے ہیں۔ ملک میں بجلی اتنی کم نہیں جتنا کہ لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے۔ کمی کی بڑی وجہ پچاس فی صد سے زیادہ بجلی کا چوری ہوجانا بھی ہے۔ واپڈا کے اپنے ملازمین لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ عائشہ گلالئی ایم این اے کے مطابق وہ سب کے سب مفت بجلی حد سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم اُن کی تعداد دو لاکھ تصور کریں اور ہر گھرانہ اوسطاً دس یونٹ بجلی روزانہ مفت استعمال کرے، تو صرف ایک سال میں تہتر کروڑ یونٹ مفت چلا گیا۔ اس کے ساتھ اُن لوگوں کو لیجئے جو بجلی چوری کرتے ہیں، ان میں چھوٹے بڑے کارخانہ دار بھی شامل ہیں۔ وہ لوگ بھی شامل کریں جو واپڈا والوں کے ساتھ مل ملا کر انڈر بلنگ کرواتے ہیں یا بل ہی کے بغیر بجلی خرچ کرتے ہیں۔ اُن طاقتور افراد اور اداروں کو تصور کرلیں جن سے واپڈا والے ڈر تے ہیں اور اُن کے سائے کو سلوٹ کرتے ہیں۔ ناقص وائرنگ اور غیر معیاری سامان بجلی کو تصور میں لائیں جو بجلی کے صرف میں اضافہ کرتے ہیں۔ وطن عزیز میں بجلی سے چلنے والی اُن پرانی طرز کی مشینوں کو دیکھئے جو زیادہ بجلی خرچ کرنے کی وجہ سستے ہیں اور جن کا استعمال زیادہ ہے۔ ان سب ناجائز استعمال اور چوری کی قیمت اُن لوگوں سے وصول کی جاتی ہے، جو دیانتداری کے ساتھ بل ادا کرتے ہیں۔ خدا کا قہر اور لعنت ظالموں پر قرآن میں مذکور ہے اور ہم قوم کی بددعائیں سنتے ہیں۔ آج کل غبارہ نما شیشے کے پرانے بلبوں کا استعمال کم ترین ہوگیا ہے، کیوں کہ یہ روشنی کم اور خرچہ زیادہ کرتے ہیں۔ تعجب کا مقام ہے کہ میونسپلٹی والے سٹریٹ لائٹس میں آج بھی یہ زیادہ خرچ والے بلب استعمال کرتے ہیں، معلوم نہیں کیوں؟ بات تاجروں کی مکمل ہڑتال کی تھی۔ ہڑتال کے بعد لوڈشیڈنگ میں نہ تو کمی آئی، نہ کوئی اصول اور سلیقہ، وزیراعظم جیسی مقتدر شخصیت کھلے عام اعلان کرتی ہے کہ اوقات سحر و افطار اور عید کے روز لوڈشیڈنگ نہ ہوگی اور عوام دیکھتے ہیں کہ اُن دنوں معمول سے زیادہ اندھیرے کا سامنا ہوتا ہے۔ دشمن کا خفیہ ایجنڈا ہے کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو اور خدانخواستہ وہ خانہ جنگی پر اُتر آئیں لیکن اِن شاء اللہ ایسا کبھی نہ ہوگا۔ ان لوگوں کو مقدس تسلی ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور ظالم اپنے انجام سے نہیں بچ سکتے۔ پاکستان کے مسلمان صبر کریں گے۔ صبر، صبر اور صبر۔ بقول جدید سیاسی مفکر اور عظیم چینی لیڈر ماؤزے تنگ کے ’’تم صبر کرو، صبر کرو اُس وقت تک صبر کرو جب دشمن خود اپنے اعصابی رد عمل کا شکار ہوکر ٹوٹ پھوٹ جائے۔‘‘ قوم کے اندر اور ملازمین میں اور محکمہ بجلی و تجارت و مارکیٹ کے شعبوں میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں۔ عنقریب اُن کی قوتِ مدافعت بیدار ہوگی اور یہ خرابیاں جو ہم آج دیکھتے ہیں، یہ معدوم ہوجائیں گی۔ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ وہ صبر کرنے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ عوام اور خواص خود مل بیٹھنے اور مسائل کے حل کے لیے کوششیں شروع کریں۔ رب العالمین اُن کی حالت بدلتا ہے جو خود اپنی حالت کے بدلنے کی کوشش کریں۔ بجلی کا مسئلہ مسلسل سوچ اور حقیقت پر مبنی فیصلوں سے حل ہوسکتا ہے یہاں بھی مارکیٹ کی طاقت رکاؤٹ بنے گی۔ تجارت کے نام بجلی سے چلنے والی اتنی چیزیں بنائی اور باہر سے لائی جارہی ہیں جن کے مقابلے میں بجلی کی رسد کم ہے۔ میڈیا کے ادارے صرف منفی اثرات والی باتیں کرتے ہیں۔ ہم نے آج تک کسی مبلغ، کسی مدرس، کسی مولوی سے یہ نہیں سنا کہ بھائیو، اگر ایک بلب سے گزارا ہوتا ہے، تو تم دوسرا مت جلاؤ۔ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور ہم جس بیدردی سے بجلی خرچ کرتے ہیں، وہ ہم سب دیکھتے ہیں۔ انتخابات قریب ہیں۔ اپنے آپ کو عوام کے سامنے لانے کے لیے ہڑتال کا حربہ استعمال کیا گیا۔ اس کام میں ملوث تقریباً سارے افراد سیاسی وابستگیوں والے ہیں، لیکن وہ الٹا عوام کو نقصانات دینے کے مؤجب ہوئے۔ ہمیں اُمید ہے کہ یہ حضرات سستی شہرت کی نسبت حقیقی عوامل کو سامنے رکھ کر اقدامات کریں گے۔ سیاسی لوگوں نے عوام کی فلاح و بہبود اور سہولیات سے مکمل چشم پوشی کی ہوئی ہے۔ ہڑتال اور احتجاج کرنے والے پارلیمنٹ میں ہمیشہ ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ بجلی کا مسئلہ پورے ملک میں ہے جبکہ سوات کے اپنے مسائل بھی بہت شدید ہیں۔ مارکیٹ والے دانشمند اور با اثر لوگ ہوتے ہیں۔ اُن کی کوششیں مقامی معاملات اور مسائل میں زیادہ اثر کرسکتی ہیں۔ اس لیے اُن کو چاہئے کہ وہ مرکز اور صوبے کی حکومتوں کے بڑوں کو بتا دیں کہ اُن کی سیاسی اختلافات کا شکار سوات کے عوام ہوئے ہیں۔ یہ کام اب وہ لوگ بند کردیں۔ مختلف خفیہ طریقوں کے استعمال سے سوات میں ترقیاتی کام مفلوج کروائے گئے ہیں۔ اس طرح ملاکنڈ دویژن نہ پوری طرح پاکستان ہے اور نہ قبائلی علاقہ۔ یہاں سے لاقانونیت کا خاتمہ کیا جائے اور آئین کے آرٹیکل 247(3) میں ایسی ترمیم کی جائے کہ ہر منظور شدہ قانون ان علاقوں کو مردان اور ملتان کی طرح خود بخود دستیاب اور لاگو ہو۔ اس طرح اس ڈویژن کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ ان کو عمدہ روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ یہاں کی مارکیٹ میں پنجاب سے جعلی اور غیر معیاری اشیا بہت زیادہ آتی ہیں، اُن کا خاتمہ کیا جائے۔ ورنہ یہاں کے تمام فیڈریشنز اور یونینز آنے والے انتخابات کا مکمل بائیکات اُس اتحاد کے ساتھ کروائیں جس اتحاد کے ساتھ انہوں نے اپنی مارکیٹ بند کیا تھا۔
نوٹ : زماسوات ڈاٹ کام کا مصنف کے متن سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔