آصف شہزاد

قانون،پولیس اور رگوں میں اترتا زہر

قانون،پولیس اور رگوں میں اترتا زہر | آصف شہزاد

نوجوانوں کی رگوں میں آئس اور ہیروئین کا زہر اتارا جارہا ہے جبکہ باشعور حلقوں کو زندہ باد مردہ باد سے فرصت ہی نہیں !
“سیاہ ست” نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں ایسے لے رکھا ہے کہ کوئی بھی فرد پلٹ کر دیکھنے کو تیار نہیں !
معاشرہ برائیوں اور جرائم کا گڑھ بنتا جارہا ہے جبکہ قوم رنگین جھنڈوں کے سائے میں “سیاہ سی” ترانوں کے دھن پر خرمست خوابوں کی پٹاری سر پر لئے ناچ رہی ہے !
مسائل کا تدارک اور ان کے حل میں عدم دلچسپی سے بلاشبہ بھیانک نتائج مرتب ہورہے ہیں !
عزیزان من !
منشیات پر اگر بروقت قابو نہ پایا گیا تو خدانخواستہ یہ لعنت ہمارے معاشرہ کیلئے ناسور بن جائیگی اور پھر چائنہ ہی کی مثال لے لیں کہ افیون کے عادی شہریوں کو ریاست ہی کے ہاتھوں مرنا پڑا !
منشیات فروشی کے گھناؤنے کاروبار میں ملوث زیادہ تر عناصر باقی دنیا کی طرح یہاں بھی بے پناہ طاقت میں ہیں کوئی بھی ان کے خلاف اقدام نہیں کرسکتا پولیس کو بھی ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کیونکہ مینگورہ شہر میں منشیات فروخت کرنے والے بے شمار ایسے ڈیلرز ہیں جن کے بااثر شخصیات میرا مطلب ہے نامی گرامی بدمعاشوں سے دیرینہ روابط ہیں اور یہ روابط ایسے ہیں کہ جن میں کچھ حیوانی مجبوریاں بھی پنہاں ہیں جیساکہ منشیات ڈیلرز میں اکثریتی طور پر خوبرو عورتیں ہیں یا یوں کہئیے کہ یہ ڈیلرزخوبرو عورتوں کے رشتہ دار ہیں !
لہٰذا مجال ہے کہ کوئی ان ڈیلرز پر ہاتھ ڈالنے کی جرات کرسکے یا ان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی عمل میں لائے اور اگر ایک آدھ آفیسر جرات کر بھی لیتا ہے تو دوسرے روز ٹرانسفر اور معطلی کی دھمکیاں دیکر اثر رسوخ استعمال کرکے ان ڈیلرز کو باعزت طور پر آزاد کرالیا جاتا ہے۔۔۔!!!
۲۰۰۹ کے بعد ان ڈیلران نے طاقت کے منبع کو بھی پہچان لیا ہے اور جو سِکّہ طاقتوروں کے ہاں رائج الوقت ہے اس کا بھی مکمل انتظام رکھتے ہیں لہٰذا پولیس کی کارکردی بلا شبہ متاثر ہے !
منشیات کے عادی افراد کا قصور بھی بس اتناہی ہے کہ انہیں لت لگ چکی ہے اور وہ اس لعنت کے عادی بن چکے ہیں !
اور یہ لعنت شہر میں آسانی سے اسلئے دستیاب ہے کیونکہ پولیس کی مبینہ سرپرستی ہے !
اور پولیس اسلئے مجبور ہیں کیونکہ بڑے لوگوں کی سرپرستی واضح ہے !
اور بڑے لوگ اسلئے سرپرستی کررہے ہیں کیونکہ عدالت نے کونسی سزا دینی ہے ؟
جبکہ عدالت سزا اسلئے نہیں دے سکتی کیونکہ سخت سزا قانون میں نہیں لکھی !
اور جو لکھی سزا ہے وہ ہیروئین کی ایک پوڑی کی مار ہے
اب سوال اٹھتا ہے کہ قانون سازی کس کی ذمہ داری ہے۔۔۔؟
جواب آتا ہے کہ اسمبلیوں کی !
پھر سوال اُبھرتا ہے کہ اسمبلی ممبران کو کس نے منتخب کیا ؟
جواب ملتا ہے کہ عوام نے !
اب کے بار سوال کیساتھ جواب بھی پیدا ہوتا ہے
عوام نے کیوں منتخت کیا ؟
کیونکہ “شاہ رخ خان” کی طرح دکھتا ہے اور سلمان خان کی طرح دبنگ ہے !
لاحولہ ولاقوة الا باللہ
جب یہ حال ہو ہمارے معاشرتی شعور کا تو ووٹ ضرور ایسے شخص کے حق میں جائیگا جو اسمبلی فلور پر کھڑے ہوکر قوانین سازی کیلئے دو شپت بھی کہنے سے قاصر ہوگا !
ستم بالا ستم تو یہ بھی ہے کہ پولیس ان منشیات فروشوں کو پکڑتی ہے تو ایف آئی آر درج کئے بغیر حوالات میں رکھنا پڑتا ہے اوپر سے چائے پانی کا بھی پوچھنا ہوتا ہے کیونکہ تلوار تو بہرحال سر پر لٹکتی ہی رہتی ہے اب کہ تب کوئی بڑا آدمی دو چار چمچوں کے حصار میں یہ کہتے ہوئے وارد ہوگا کہ کیوں لائے ہو میرے بندے کو ؟
اگر کوئی سر پھرا آفیسر کسی کی پرواہ کئے بغیر ایف آئی آر درج کرکے ملزم کو عدالت میں پیش کرا بھی دیتا ہے تو عدالت مبلغ پانچ سو روپے یا مبلغ پندرہ سو رپے کا جرمانہ عائد کرکے باعزت طور بری کرتی ہے۔اب نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس آفیسر نے بڑے آدمی سے دشمنی بھی مول لی اور برائی بھی مزید ڈھٹائی کیساتھ جاری ہے !
لہٰذا پولیس کی کارکردگی چاروناچار ناقص ہے اور ہم خوب جانتے ہیں کہ ریاست میں پولیس کا کام چونکہ معاشرہ سے بُرائیوں اور جرائم کا خاتمہ ہے تاہم اگر پولیس خود ہی ان برائیوں کے سوداگروں کے مبینہ معاون ثابت ہو تو نتائج کالے رنگ کے نہ ہونگے تو کیسے ہونگے ؟
قوم کے بچے اگر آج گندگی میں بیٹھے ہیروئین پی رہے ہیں تو مجھے بتایا جائے کہ میں کونسی تبدیلی کو خراج تحسین پیش کروں؟
اگر موجودہ حکومت کے اسیر نوجوان مجھ سے اس بات پر نالاں ہیں کہ میں حکومت کے گُن نہیں گارہا تو ان نوجوانوں اور سیاسی پارٹیوں کیلئے اپنا ایمان خراب کرنے والے شیروں ، ٹائیگروں ، ننگیالوں اور جیالوں سے گزارش ہے کہ معاشرہ سے کونسی برائیاں ختم ہوئی ہیں اور کونسی خوشحالی آئی ہے جس کے میں قصیدے لکھوں ؟
آخر میں ہاتھ جوڑ کر عوامی حلقوں کی منت کرتا ہوں کہ خدارا۔۔۔!!! خدارا ائندہ الیکشن میں “سیاہ سی” بُت پرستی میں سے آزاد ہوکر ووٹ کا استعمال کریں زندہ باد اور مردہ باد کے سریلے نعروں میں مگھن ہوکر اپنے ووٹ کو ضائع نہ کریں بلکہ پارٹی بازی اور تعلقات کو ایک طرف رکھ کر ووٹ کا استعمال اس ذمہ داری کیساتھ کریں کہ ائندہ نسلوں کیلئے ضابطوں کی تجدید ہو ایسے ممبران کا انتخاب کریں جو معاشرتی تبدیلیوں کیلئے اسمبلی فلور پر سیاہ سی تقاریر کے بجائے مثبت بات کرسکتے ہو !
جو یہ فہم رکھتے ہو کہ صرف بہتر قانون سازی ہی اس قوم کو ترقی کہ راہ پر گامزن کرسکتی ہے !

Loading...
Back to top button