کالم/ مضامین

حکومتی عدم توجہ اور صحافیوں کو درپیش خطرات

خیبرپختونخوا ہ سمیت ملک بھر میں صحافیوں کو تحفظ دینے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا صحافیوں کے اغواء،قتل،انہیں دھمکانے اور تشدد کے واقعات معمول بن گئے ہیں۔حکومت اور متعلقہ اداروں کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کے لئے ٹھوس اقدامات نا ہونے سے صحافی غیر محفوظ اور خطرات سے دوچار ہیں ۔

پاکستان خطرناک کیوں ؟

 پاکستان کا شمار صحافیوں کے لئے خطرناک ملکوں میں ہوتا ہے،جہاں پر صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی میں لاتعداد مسائل اور خطراتکا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں 27 صحافیوں کا قتل ہوا جن میں 7 صحافی صوبہ خیبر پختونخواہ میں قتل کئے گئے۔2002ء سے لیکر اب تک ملک بھر میں  73صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے، انٹر میڈیا کی رپورٹ کے مطابق 2000 ء سے اب تک خیبرپختونخوا اور فاٹا میں 42 صحافی قتل ہوئے ۔ ان صحافیوں میں چار صحافی سوات کے بھی ہیں جنہیں کشیدگی کے دوران قتل کیا گیا ۔ سوات کے ایک صحافی عبدالعزیز شاہین کو طالبان نے اغواء کیا جو سیکورٹی فورسز کی جانب سے فضائی حملے میں جاں بحق ہوا۔

عبدالعزیز شاہین کا اغواء اور شہادت

عبدالعزیز شاہین سوات کی تحصیل مٹہ جو طالبان کا گڑھ تھا میں روزنامہ آزادی اور خبرکار کے ساتھ منسلک تھے،2008ء میں شدت پسندی بڑھی تو اس کا اثر صحافیوں پر بھی ہونے لگا، طالبان کے خلاف خبریں چلتی تو صحافیوں پر پابندیاں لگادی جاتی، انہیں اغواء اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی، دہشت گردوں کے اس ظالمانہ روئے کا شکار صحافی عبدالعزیز شاہین بھی ہوا۔ شاہین کے قریبی ساتھی اور تحصیل مٹہ میں روزنامہ آزادی کے  بیورو چیف خائستہ باچا نے  گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شاہین ایک بہادر اور نڈر صحافی تھے،”طالبان کے باربار دھمکانے کے باوجود وہ حق اور سچ لکھتے نہیں کتراتے ، اگست 2008 میں اُن کے گھر پر طالبان نے حملہ کیا اور اُن کی گاڑی نذرآتش کردی،شدت پسندوں کے خوف کا یہ عالم تھا کہ پولیس میں رپورٹ درج کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہوتا “۔

عبدالعزیز شاہین کو طلبان نے اغواء کیا تھا جو بعد میں فضائی حملے میں شہید ہوا

خائستہ باچا مزید کہتے ہے کہ عبدالعزیز شاہین 27 اگست 2008 کو چپریال کے علاقے میں شدت پسندوں کے ہاتھوں اغواء ہوئے اور طالبان کے ہیڈ کوارٹر علاقہ گٹ پیوچار میں قید کرلئے گئے۔

سیکورٹی ذرائع اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق 29 اگست 2008 کو علاقہ گٹ پیوچار میں شدت پسندوں کے اُسی کے ٹھکانے پر فضائی حملہ ہوا جہاں پر عبدالعزیز شاہین قید تھے ۔ اِس حملے میں دیگر بیس افراد سمیت عبدالعزیز شاہین کی بھی موت ہوئی ۔

ایف آئی آر درج ہوئی نا ہی تحقیقات ہو پائی

سوات میں جاری کشیدگی کے دوران حکومتی عملداری مکمل طور پر ختم ہوچکی تھی،سرکاری عمارات پر بھی شدت پسندوں کا قبضہ تھا جبکہ پولیس اسٹیشن کو طالبان اسٹیشن کا نام دے دیا گیا تھا ۔ ایسے حالات میں طالبان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا یا ان کے خلاف بات کرنا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف تھا۔ یہی وہ اسباب تھے جس کے باعث صحافی عبدالعزیز پر ہوئے حملے اور ان کے اغواء کی نہ تحقیقات ہو پائی اور نا ہی کسی نے رپورٹ درج کی۔

اس حوالے سے مٹہ پولیس اسٹیشن کے ایک پولیس آفیسر نے بتایا کہ 2008 میں علاقہ مکمل طور پر طالبان کے کنڑول میں تھا،حکومتی مشینری ٹھپ ہو کر رہ گئی تھی”ادارے مفلوج تھے اور زیادہ تر پولیس اہلکار طالبان کے ڈرسے مستعفی ہو رہے تھے “

عبدالعزیز شاہین کے بڑے بھائی جبار خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُس وقت ہر طرف طالبان کا راج تھا ، پولیس اسٹیشن بھی ان کے قبضے میں تھا اور حکومتی اداروں کا نام و نشان تک نہیں تھا ہم چاہ کر بھی شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی کے متحمل نہ تھے ” نہ تو اغواء اور حملے کی ایف آئی آر درج ہوئی اور نہ بعد میں کسی نے تحقیقات کرنے کی زحمت کی ، ہمیں علم تھا کہ کوئی سراغ نہیں ملنے والا اسی ہم نے چھپ رہنا ہی بہتر سمجھا “

جبار خان نے مزید کہا کہ امن کی بحالی اور متاثرین کی سوات واپسی  کے بعد بھی شاہین کے کیس میں کوئی پیش رفت ہوئی اور نا ہی کسی نے تحقیقات آگے بڑھائی ” ہمارے اپنے گھر میں فوجی چوکی بن گئی تھی جس کو کشیدگی کے دوران کافی نقصان پہنچا تھا، سیکورٹی اداروں اور حکومت نے ہمارے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی لیکن کوئی شنوائی نہ ہو سکی۔” انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی طرف سے تین لاکھ روپے معاوضہ دیا گیا جبکہ کراچی میں منظور شدہ پلاٹ کا بھی تک کچھ پتہ نہ لگ سکا ۔

سابق ایڈوکیٹ جنرل اور پشاور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل صابر شاہ کہتے ہیں کہ فوجداری مقدمات ایف آئی آر سے شروع ہوتے ہیں ،مقدمات میں مدعی کسی کے خلاف رپورٹ درج کرتا ہے “جب ملزم کا کسی کو علم نہ ہو اور وہ نامعلوم ہو ، گواہان بھی موجود نا ہو تو پولیس پھر اپنے طریقے سے تفتیش کرتی ہے ، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ملنے والے یا جائے وقوعہ سے حاصل کردہ شواہد کی بناءپر ہی تحقیقات کی جاتی ہے ” انہوں نے مزید کہا کہ ایسے کیسز خودبخود ختم ہوجاتے ہیں جس میں کسی کو نامزد نا کیا گیا ہو۔

عبدالعزیز شاہین کے کیس کے حوالے سے سابق ایڈوکیٹ جنرل صابر شاہ نے کہا کہ شاہین پر حملے اور اُن کے اغواء کی ایف آئی آر درج ہونی چاہئے تھی ” کچھ ایسے کیسز ہیں جن کی ایف آر حکومتی عملداری بحال ہونے کے بعد درج ہوئی،عبدالعزیز کی موت حالت جنگ میں فضائی حملے میں ہوئی تھی، اب حکومت یا اداروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا یا ان کو ملزم نامزد کرنا نا ممکن ہے ۔

عبدالعزیز شاہین کی شہادت کے بعد سوات سمیت ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں منعقد کی گئی صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے مطالبات ہوئے،پی ایف یو جے کی جانب سے بھی سیکورٹی فورسز سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ صحافیوں کو ہر ممکن تحفظ فراہم کیا جائے ۔ صحافی رفیع اللہ خان کہتے ہیں کہ حکومت یا دیگر سیکورٹی اداروں کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کے صرف اعلانات کئے گئے ، تحفظ اس وقت بھی نہیں ملا اور آج بھی صحافی غیر محفوظ ہیں ۔

 میرے بھائی کی جان ” صحافت ” نے لی

عبدالعزیز شاہین کا تعلق ایک متوسط اور کاروباری گھرانے سے تھا،شعبہ صحافت کے ساتھ اُن کا دلی لگاؤ تھا ۔ شاہین کے بڑے بھائی جبار خان کہتے ہیں کہ بار بار اپنے بھائی کو صحافت چھوڑنے کا کہا لیکن وہ نہ مانے ” شدت پسندوں کی بار بار دھمکیوں کے باجود وہ اپنے کام میں مگن رہے اور حتیٰ کہ اپنی جان بھی دے دی، میں سمجھتا ہوں کہ صحافت ہی کی وجہ سے میرے بھائی کی جان گئی ۔

مجھے بھی بابا کی طرح ” صحافی ” بننا ہے

عبدالعزیز شاہین کی شہادت کے کئی سال بعد اس کی بیوہ نے دوسری شادی کرلی، شاہین کے تین بیٹے اور ایک بیٹی اپنی ماں کے پاس  ہی ہیں ۔ شاہین کے بڑے بیٹے اٹھارہ سالہ عنایت اللہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد کے بعد ہمیں لاتعداد مسائل کا سامنا کرنا پڑا” میں جتنا بھی اپنے والد کے بارے سنتا آرہا ہوں تو یہی جانا ہے کہ وہ ایک بہادر اور نڈر انسان تھے،میں بھی اپنے والد کی طرح بہادر صحافی بن کر ملک و قوم کی خدمت کروں گا اور اپنے والد کے ہی نقش و قدم پر چل کر سچائی کا ہمیشہ ساتھ دوں گا “۔

عبدالعزیز شاہین کے بڑے بیٹے نے بھی صحافی بننے کی اُمید ظاہر کی ہے

 صحافی آج بھی غیرمحفوظ

سوات کے کشیدہ حالات میں شاہین کی طرح دیگر صحافیوں کو بھی کئی بار اغواء کیا گیا اور وہ تشدد کا نشانہ بنے ، صحافی نیاز احمد خان جو اُس وقت خیبر نیوز کے ساتھ منسلک تھے کہتے ہیں کہ شدت پسندوں کے خلاف سیکورٹی فورسز کے پہلے آپریشن کے دوران انہیں جاسوس کا نام دے کر طالبان نے اغواء کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا ” کئی گھنٹوں بعد صحافیوں کے احتجاج اور ادارے کی مداخلت پر انہیں رہائی ملی ، وہ وقت بہت کٹھن اور تکلیف دہ تھا تاہم آج بھی جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی ہے اور صحافیوں کو اغواء کیا جاتا ہے ،صحافی آج بھی مختلف اداروں اور سیاسی تنظیموں کی جانب سے دباؤ کے شکار ہیں “۔

سیاسی دہشت گردی بڑا خطرہ

سوات کی تحصیل خوازہ خیلہ میں با اثراور سیاسی افراد کی جانب صحافیوں کو خطرات لاحق رہتے ہیں، صحافی رفیع اللہ خان بھی سیاسی دہشت گردی کا شکار رہ چکے ہیں کہتے ہیں کہ ایم این اے ڈاکٹر حیدر علی خان کے بھتیجے نے سربازار انہیں اغواء کرنے کی کوشش کی اور ان کو تشدد کا نشانہ بنایا ” سیٹزن پورٹل میں ان کے خلاف کسی نے شکایت کی تو الزام مجھ پر لگایا گیا،28 دسمبر2018 کو میرے اوپر اپنی گاڑی چڑھادی اور اغواء کرنے کی کوشش کی”۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے کپڑے پھاڑ دئے اور مجھ پر تشدد کیا ۔

رفیع اللہ خان مزید کہتے ہیں کہ پولیس اسٹیشن میں ان کی رپورٹ درج کروانے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا،چھ گھنٹے کی مسلسل کوششوں کے بعد ہی ایف آئی آر درج ہوئی،”میڈیا اداروں اور صحافتی تنظیموں نے بھرپور ساتھ دیا بعدازاں علاقے کے مشران اور جرگہ کی دباؤ کی وجہ سے راضی نامہ کرنا پڑا”۔

صحافیوں کا تحفظ اور حکومتی اقدامات

سوات سمیت ملک بھر میں صحافیوں کے تحفظ کے لئے ابھی تک ٹھوس قانون سازی نہیں کی جا سکی ۔ 2014 میں سوات کی خاتون ایم این اے عائشہ سید نے دیگر تین ارکان اسمبلی کے ہمراہ قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا جسے ” دی پروٹیکشن آف جرنلسٹ ایکٹ  2014” کا نام دیا گیا تھا ۔ بل پیش ہونے کے بعد حکومتی ارکان اسمبلی اور اپوزیشن نے اِسے متفقہ طور پر منظور بھی کرلیا جبکہ بعد میں بل کو سٹینڈنگ کمیٹی  کو بھجوادیا ۔ پروٹیکشن آف جرنلسٹ ایکٹ کے اہم نکات میں صحافیوں کی آزادی اظہار رائے اور تحفظ کو ابتدائیاں میں شامل کیاگیا تھا جبکہ دیگر اہم نکات یہ تھے ” صحافیوں سے اُن کے سورسز(ذرائع) معلوم کرنے کے لئے دباؤ نہ ڈالا جائےگا۔ علاقے کا ایس ایچ او صحافی کے مطالبے پر فوری سیکورٹی فراہم کرےگا۔ جن صحافیوں کا قتل ہوا یا اُن پر تشدد ہوا ان کے مقدمات خصوصی عدالت میں چلائے جائیں گے اور ملزمان کی جلد از جلد گرفتاری یقینی بنائی جائے “۔

عائشہ سید نے ایکٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بل کو اُسی نے ہی اسمبلی میں پیش کیا تا ہم اسمبلی سے بل پاس ہونے کے بعد سٹینڈنگ کمیٹی نے اس کو فعال بنانے یا آئین میں شامل کرنے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جس کے بعد وہ ایکٹ سرد خانے کی نظر ہوگیا ہے ۔

جرنلسٹ پروٹیکشن ایکٹ کی طرح دیگر ایسے کئی بِل اسمبلی سے پاس ہوئے، میڈیا تنظیموں کے سامنے رکھے گئے مگر اس میں بھی کوئی خاص پیش رفت نا ہو سکی جس کی وجہ سے صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔

صحافیوں کے تحفظ کے لئے حکومت سمیت میڈیا اداروں، متعلقہ حکومتی اداروں،میڈیا تنظیموں کو مل کر کوئی ٹھوس حل نکالنا ہوگا اور اقدامات کرنے ہوں گے، تجزیہ کاروں کے مطابق جب تک صحافیوں کا تحفظ ممکن نہیں بنایا جاتا مؤثر قانونی سازی نہیں ہوتی تب تک صحافی خطرات سے دوچار رہیں گے ۔

Related Articles

Loading...
Back to top button