ہوٹل انڈسٹری کو تین ارب سے زائد کا نقصان ہوا،الحاج زاہد خان
سوات (زما سوات ڈاٹ کام)سوات میں لاک ڈاؤن کے باعث ہوٹلز مالکان کو 3ماہ میں ساڑھے تین ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا اور سیاحی مقامات بند اور لاک ڈاؤن جاری رہا تو ایک سال میں سوات ہوٹلز انڈسٹری کو دس ارب روپے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے، سوات میں وی آئی پیز کے لئے سیاحی مقامات اور ہوٹلز کھلوائے جارہے ہیں جبکہ عام سیاحوں کو سوات آنے پر ذلیل کیا جارہا ہے، انتظامیہ وی آئی پیز کے لئے زبردستی مالکان سے ہوٹلز کھلوارہے ہیں۔ر آل سوات ہوٹلز ایسو سی ایشن کے صدر الحاج زاہد خان نے سوات پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے اور پر ہجوم پیس کانفرنس سے خطا ب کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر کالام ہوٹلز ایسو سی ایشن کے صدر ڈاکٹر عبدالودود، بحرین ہوٹل ایسو سی ایشن کے صدر ملک معراج الدین، حاض رضا خان، عبدالوکیل کانجو، روئیداد خان، سید نواب، حسین علی، باچا حسین اور دیگر نے بھی خطاب کیا، انہوں نے کہا کہ گذشتہ تین ماہ سے سوات سیاحت پر پابندی ہے جس کی وجہ سے ہوٹلز بند پڑے ہیں جبکہ چارہزار افراد بے روز گار ہوچکے ہیں جبکہ سوات ہوٹلز انڈسٹری کو ساڑھے تین ارب روپے کا نقصان پہنچ گیا ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ایک سال میں دس ارب روپے نقصان کا خدشہ ہے، انہوں نے کہا کہ سوات کے عوام معیشت کا دار مدار ٹورازم پر ہے جبکہ کورونا کی وجہ سے سوات میں ٹورازم لنڈا کے ٹو کالام نیشنل ہائی وے تعمیر کرکے سیاحت کے فروغ کے لئے اہم اقدام کیا لیکن افسوس کے کورونا اور مسلسل لاک ڈاؤن نے سیاحت کو تباہی کی راہ پر گامزن کیا ہوا ہے، اس طرح وزیر اعظم عمران خان نے سال 2020کو سیاحت کا سال قرار دیا تھا جس پر عوام نے سکھ کا سانس لیا تھا، بیرون ممالک اور دیگر شہروں کے لوگوں نے یہاں پر آکر اربوں روپے سرمایہ کاری کی تھی لیکن اس سرمایہ کاروں کی امیدوں پر پانی پھیر گیا، انہوں نے کہا کہ شروع ہی میں ہم نے مکمل لاک ڈاؤن اور تمام انٹری پوائنٹس پر میڈیکل ٹیمیں تعینات کرنے کی تجویز دی تھی لیکن انتظامیہ کی غفلت اور نااہلی کے باعث کورونا پھیل گیا، اب چونکہ کورونا صورت حال پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے، سبزی منڈی، مارکٹیں اور دیگر تمام کاروباری مراکز کھول دئیے گئے ہیں لیکن سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باجود صرف ہوٹلز انڈسٹری کو بند رکھا گیا جو سراسر زیادتی اور ظلم ہے اور اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ محمود خان اور دیگر تمام حکام سے رابطوں کے باوجود کوئی شنوائی نہیں ہورہی، جس کے وجہ ہمیں احتجاج پر مجبور کیا جارہا ہے، انہوں نے کہا کہ سوات میں دو قسم کے قوانین چل رہے ہیں عام لوگوں کو بند کیا جارہا ہے جبکہ آفسران اپنے بیگمات کے ساتھ سیاحتی علاقوں میں مصروف ہے، دوسری جانب حکومت کے جانب سے دریائے سوات کے کنارے ہوٹلوں کے مسمار کرنے کے اعلانات کئے جارہے ہیں جو لوگوں کے ذاتی جائیداد ہے اور ان کی باقاعدہ رجسٹریاں اور انتقالات کئے جاچہے ہیں اور س پر کروڑوں روپے کا ٹیکس جمع کیا گیا ہے، حکومت کمیٹی تشکیل دیکر ان کے تفصیلات اکھٹے کریں، انہوں نے حکومت سے فوری طور پر ایس او پیز کے تحت ہوٹل کھولنے اور امدادی پیکج کا مطالبہ کیا ہے۔