ہمارے تعلیمی زوال کے اسباب

تحریر: عمران اللہ

چند دن قبل ایک دیرینہ دوست سے ملاقات ہوئی چونکہ کافی عرصہ بعد ملے تھے اس لئے دل کھول کر باتیں کیں اس اثناء ان کا ایک شناسابھی وہاں آگیا اورپھر مختلف موضوعات پر بات چیت کا سلسلہ چل نکلاجس میں موجودہ تعلیمی حالت سرفہرست رہی،دوست کہنے لگا کہ پرانے زمانے کی تعلیم آج کی تعلیم سے بہتراورمفید تھی مثال دیتے ہوئے اپنے شناساکی طرف اشار ہ کیا اور بات آگے بڑھائی کہ ان کو لیجئے یہ صرف دو جماعتیں پڑھا ہواہے مگر روزمرہ زندگی میں ان کو تعلیم کی کچھ خاص کمی محو نہیں ہوتی،میں نے حیرت سے پوچھا کیسے۔۔؟

جواب دیا کہ پڑ ھ سکتا ہے لکھ سکتا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ ریاضی کے اصولوں سے بھی واقف ہے یعنی ضرب،جمع،تفریق وغیرہ سے بھی بخوبی سمجھتا ہے جبکہ آج کل دسویں جماعت پاس کرکے والے تو لکھنا تو دور کی بات اخبار بھی نہیں پڑ ھ سکتے،ان کی بات میں وزن تھا اس لئے میں نے پوچھا کہ اس تعلیمی زوال کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟تو کہاکہ کہ پچھلے دور اور آج کے نصاب میں بہت زیادہ فرق ہے پہلے جو نصابی کتب پڑھائی جاتی وہ معیاری تھیں مگر آج ایسا نہیں ہے،میں نے نفی کرتے ہوئے کہاکہ مسئلہ نصاب کا نہیں بلکہ نقل جیسی لعنت کا ہے،آج سے تیس چالیس سال قبل لوگ نقل سے ناواقف تھے اورانہیں جو کچھ پڑھایا جاتا تھا وہ دل جمعی سے سیکھتے تھے جس طرح ان دنوں کھانے پینے کی چیزیں خالص تھیں اسی طرح تعلیم بھی خالص تھی

اورلوگ بھی مخلص تھے،پہلی جماعت کا بچہ اردو الفاظ کا جوڑ توڑسیکھ جاتا تھا،ریاضی کے بنیادی ہندسے اور جمع تفریق وغیرہ بھی سیکھتا،وہ محنت کے عادی تھے لیکن بدقسمتی سے نئی نسل اپنے لئے آسانی پیدا کرنے کیلئے محنت سے آنکھیں چرا رہی ہے اوریوں نقل کا پہیہ چل پڑا حالانکہ یہ کھلی حقیقت ہے کہ نقل ایک بہت ہی گھمبیر اور سنگین مسئلہ ہے،اگر کوئی شخص ڈگری یا ڈپلومہ ہولڈر ہے مگر اسے متعلقہ شعبے میں دسترس اور مہارت حاصل نہیں توتو وہ اپنے علاوہ دوسروں کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہوتاہے،ڈاکٹر اگر نقل سے پاس ہوجاتا ہے یا استاد نقل کے بل بوتے پر تدریس سے وابستہ ہوجاتا ہے تو وہ معاشرہ کیلئے کافی نقصان کا سبب بن سکتے ہیں،ڈاکٹر لوگوں کی زندگی سے کھیلے گا جبکہ استاد قوم کے نونہالوں کے مستقبل کے ساتھ کھیلتا نظر آئے گایہ محض ایک مثال ہے،نقل کی بیماری ہماری قوم کے جوانوں میں سرایت کرتی جارہی ہے امتحان کے دنوں میں نقل مافیا سرگرم ہوجاتا ہے،جگہ جگہ پاکٹ گائیڈاورمائیکروفوٹوسٹیٹ کی دکانیں سج جاتی ہیں،حکومتی اعلانات اور احکامات کے باوجود بھی یہ کاروبار کھلے عام اوربلا خوف وخطر جاری ہے،ہمیں اگر مہذب اورترقی یافتہ قوموں کی صف میں جگہ بنانی ہے تو ہمیں نقل کے ناسورکا خاتمہ کرنا ہوگا اوراس مقصدکے حصول کیلئے اساتذہ،والدین او ر دیگر حلقوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے لہٰذہ ہمیں یہ ذمہ داری پوری کرنے کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لانی چاہئے تاکہ ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔

( خبر جاری ہے )

ملتی جلتی خبریں
Comments
Loading...

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. AcceptRead More