سوات، احتیاطی تدابیر میں غفلت ،کورونا نے پنجے گھاڑ دئے

تحریر:عارف احمد

خیبر پختونخوا کے سیاحتی علاقے وادی سوات میں ایک ہی دن میں 17 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جس کے بعد ضلع بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد215 تک پہنچ گئی ہے ۔ وادی میں برائے نام لاک ڈاؤن اور لوگوں کی جانب سے احتیاطی تدابیر نہ اپنانے کی وجہ سے کورونا کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے ۔

محکمہ صحت سوات کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے  گزشتہ24 گھنٹوں کے دوران مزید17 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہیں جن کا تعلق علاقہ گل کدہ،علیگرامہ،رحیم آباد،لنڈیکس،شموزئی ،اوڈیگرام،منگلور،کوٹہ بریکوٹ،شاہدرہ وتکے،امانکوٹ،سنگوٹہ اور سیدو شریف سے ہیں۔ محکمہ صحت کے مطابق  اب تک ضلع بھر میں1301کورونا کے کیسز رپورٹ ہوئے جن میں888افراد کے ٹیسٹ منفی آئے ہیں جبکہ198افراد کے ٹیسٹ رپورٹ ابھی تک موصول نہیں ہوئے،ضلع بھر میں 56افراد صحت یاب ہو چکے ہیں جبکہ14 افراد کورونا سے جاں بحق ہوئے ہیں۔

برائے نام لاک ڈاؤن

ضلعی انتظامیہ سوات نے ماہ رمضان کے لئے لاک ڈاؤن میں نرمی کرتے ہوئے صبح 9 بجے سے سہ پہر4 بجے تک دکانیں کھولنے کی اجازت دے رکھی ہے جس میں اشیائے خوردونوش،میڈیکل سٹورز،کریانے کی دکانیں اور ریڑھی میں خوراکی اشیاء فروخت کرنے والے شامل ہیں ۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے دفعہ144 کے نفاذ کے باوجود بازاروں میں لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی ہیں جبکہ شاپنگ سنٹروں اور گارمنٹس کی دکانوں میں بھی خواتین کا رش دکھائی دیتا ہے ۔سینئر صحافی و تجزیہ نگار نیاز احمد خان کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں نرمی اور عوام کی جانب سے غفلت برتنے کی وجہ سے کورونا کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے ، دفعہ144 کی خلاف ورزی کی جارہی ہے جبکہ اس حوالے سے انتظامیہ نے چھپ سادھ لی ہے ۔’’ زیادہ تر لوگ اِسے مذاق سمجھ رہے ہیں اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہے جس کے باعث آئے روز کیسز میں اضافہ ہورہا ہے ۔‘‘

انتظامیہ بھی ذمہ دار ہے !

سوات میں کورونا کے کیسز میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے جسے انتظامیہ کی غفلت اور ناقص انتظامات کا پول کھل گیا ہے ، تین دن پہلے تحصیل بریکوٹ کے علاقہ کوٹہ میں ایک ہی محلے میں گیارہ افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی جس کے بعد محلے کو قرنطینہ قرار دے کر سیل کردیا گیا لیکن اس کے باوجود انتطامات نا ہونے کی وجہ سے مذکورہ محلے کے افراد باہر گھومتے رہے جبکہ مذکورہ علاقے میں گھروں میں موجود خواتین شاپنگ سنٹروں میں بھی خواتین کا تانتا بندھا رہا ۔ بریکوٹ سے تعلق رکھنے والے صحافی عبید فضل نے اس حوالے سے بتایا کہ اتنے زیادہ کیسز سامنے آنے کے باوجود تحصیل انتظامیہ نے غفلت اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا، قرنطینہ قرار دئے گئے علاقے میں انتظامات نا ہونے کے برابر ہے جبکہ خواتین شاپنگ سنٹروں پر بھی انتظامیہ نے چھپ سادھ لی ہے اور اب آئے روز تحصیل بریکوٹ میں کورونا کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

بین الاضلاع داخلوں پر پابندی مگر سیاحوں کی آمد کیسے؟؟؟

 کورونا وائرس کی روک تھام کے پیش نظر صوبائی حکومت نے بین الاضلاع داخلوں پر پابندی لگا دی ہے جس کی وجہ سے دیگر اضلاع کے لوگ سوات میں داخل نہیں ہو سکتے لیکن پابندی کے باوجود نجی گاڑیوں میں ملک بھر سے سیاحوں کی سوات آمد کا سلسلہ بدستور جاری ہے ۔ آمدہ اطلاعات کے مطابق سوات کی وادی کالام،بحرین،مالم جبہ اور دیگر علاقوں میں سیکڑوں کی تعداد میں سیاح موجود ہے۔ کالام سے تعلق رکھنے والے صحافی ایچ کالامی کا کہنا ہے کہ سوات کے داخلی چیک پوسٹ لنڈاکے پر سیاحوں کو چھوڑا جا رہا ہے اور یہ سیاح وادی کے سیاحتی مقامات کا رخ کرتے ہیں جس کے باعث کورونا وائرس  کے مزید پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ’’ کالام کے ہوٹلوں میں پابندی کے باوجود سیاحوں کو کمرے کرائے پر دئے جا رہے ہیں جبکہ انتظامیہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں۔‘‘

محکمہ صحت نے خطرے کی گھنٹی بجادی

سوات میں کورونا کیسز میں اضافے کے بعد محکمہ صحت سوات نے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر لوگ سنجیدہ نا ہوئے اور احتیاطی تدابیر نا اپنائے تا حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر اکرم شاہ نے خبردار کیا تھا کہ اب ایمبولینس میں مریضوں کو اسپتال منتقل کیا جاتا ہے اگر لوگ نے احتیاطی تدابیر نا اپنائے تو پھر ٹی ایم اے کے اہلکار گاڑیوں میں لاشیں اُٹھائیں گے ۔ ڈی ایچ او کا کہنا ہے کہ اب لوگوں کو سمجھ جانا چاہئے کہ کورونا مذاق نہیں اور احتیاطی تدابیر اپنانے اور گھروں تک محدود رہنے سے ہی ہم اس کو شکست دے سکتے ہیں۔

سوات میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے کو طبی ماہرین خطرناک قرار دے رہے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ سخت سے سخت اقدامات اُٹھائے جائیں اور لوگ انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہو، اگر اسی طرح غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا تو حالات اٹلی و چائنہ سے بھی خطرناک ہو سکتے ہیں۔

( خبر جاری ہے )

Comments
Loading...

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. AcceptRead More