پاکستان انتخابات: آیا سیکیورٹی صورتحال اتنے خراب ہے کہ انتخابات ملتوی کئے جائیں؟

تحرير : عائشہ خان

پاکستان میں 8 فروری کو عام انتخابات کا اعلان کیا گیا ہے تاہم انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی ملک کی سیکیورٹی صورتحال بالخصوص خیبرپختونخوا اور بلوچستان صوبوں میں زیر بحث ہے اور اس حوالے سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ اس حالات میں انتخابات ممکن ہے بھی کہ نہیں۔
یہاں تک کہ ملک کے ایوان بالا سینیٹ میں سیکیورٹی اور سرد موسم کے پیش نظر انتخابات ملتوی کرنے کے دو قرارداد جمع اور ایک منظور بھی ہو چکا ہے ۔
سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز ھلال الرحمان نے 14 جنوری کو اور اس سے پہلے 12 جنوری کو ازاد سینیٹر ہدایت اللہ کی جانب سے جمع کرائی گئی قرارداد میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ امیدواروں پر حملوں سے متعلق گہری تشویش ہے، ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں، عام انتخابات 3 ماہ کے لیے ملتوی کردیئے جائیں، عوام کی جان و مال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔
قرارداد میں مزید کہا گیا کہ دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے ملک میں خوف اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا ہوگیا ہے، امیدواروں کے گھروں اور انتخابی دفاتروں میں دھمکی آمیز پمفلٹس کی تقسیم موجودہ سیکیورٹی مسائل میں ایک اور پریشان کن اضافہ بنتا جارہا ہے۔
اس سے پہلے 5 جنوری کو خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے آزاد سینیٹر دلاور خان نے اسی طرح کا قرارداد پیش کیا تھا اور8 فروری 2024 کے انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کی گئی تھی اس وقت سینیٹ میں 14ممبران موجود تھیں۔
سینیٹر دلاور خان نے قرارداد میں کہا تھا کہ ملک کے بعض علاقوں میں شدید سردی کا موسم ہے، سیاسی جماعتوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو سیکیورٹی تھریٹس ہیں، انٹیلی جنس ایجنسیز نے ریلیوں پر حملوں کا سیکیورٹی الرٹ جاری کیا ہے۔
قراداد کے مطابق کہ ملک میں سیکیورٹی کےحالات انتہائی خراب ہیں، مختلف علاقوں میں موسم سرما اپنی انتہا پر ہے، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں حالات کشیدہ ہیں، فروری میں ہونے والے انتخابات کو ملتوی کیا جائے۔
قرار داد کے متن کے مطابق الیکشن کمیشن سے کہا گیا ہے
کہ وہ مناسب وقت تک انتخابات ملتوی کرے۔
لیکن الیکشن کمیشن نے انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے کہ اعلان جردہ تاریخ پر ہی انتخابات ہونگے۔

قراردادوں پر تنقید
تجزیہ نگاروں نے قراردادوں پر تنقید کی ہے اور اس قراردادوں کو غیر جمہوری قرار دیا ہے
پاکستان مسلم لیگ کے سینیٹر افنان اللہ نے اس قرارداد کی مخالفت کی تھی، دیگر زیادہ تر سیاسی پارٹیوں نے بھی اس قرارداد کی مخالفت کی تھی۔
جبکہ اس سے چند قبل چند روز قبل جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں پرامن ماحول کو یقینی بنانے کے لیے انتخابات کو چند روز کے لیے مؤخر کیا جائے تو یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوگا۔
اور اس سے قبل مولانا فضل الرحمٰن نے بتایا تھا کہ جنوری میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں عام انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔

بدامنی کے واقعات
حالیہ پاکستان میں انتخابات کے اعلان کے بعد خاص طور پر خیبرپختونخوا اور قبائلی اضلاع میں بدامنی کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔
نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ پارٹی کے سربراہ محسن داوڑ کے گاڑی پر شمالی وزیرستان میں فائرنگ کا پیش ایا۔ لیکن داوڑ نے انتخابات ملتوی کرنے کی مخالفت کی۔
مولانا فضل الرحمان کے قافلے پر ڈیرہ اسماعیل خان میں فائرنگ کی گئی، شمالی وزیرستان میں آزاد امیدوار کا قتل ہوا، باجوڑ میں امیدوار کی گاڑی پر بم حملہ کیا گیا، سیکیورٹی فورسز پر حملوں اور دھماکوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ باجوڑ میں پولیس کی گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔
گزشتہ دو انتخابات میں 2018 اور 2013 میں خصوصی طور پر دہشت گردی کا شکار ہونے والی عوامی نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ چاہے کچھ بھی حالات جیسے بھی ہو وہ انتخابات کرانے کے لیے تیار ہیں۔
صدر اے این پی پختونخوا ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی امیدواروں کا اعلان کرچکی ہے، انتخابات کیلئے پوری طرح تیار ہے۔
ایک بیان میں سیکیورٹی صورتحال کے بارے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس سے برے حالات میں انتخابات میں حصہ لیا ہے۔
ان کے مطابق (2013 میں ہمارے امیدواروں اور رہنماؤں کو تو چھوڑیں پولنگ ایجنٹس کو بھی نشانہ بنایا جارہا تھا۔ 2018 میں ہمارے بھائی ہارون بلور کو الیکشن سے قبل انتخابی جلسے میں شہید کیا گیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کیلئے سیکیورٹی کے حالات بالکل بھی نئے نہیں ہیں)۔

تجزیہ نگار کیا کہتے ہے؟
تجزیہ نگاروں کے مطابق حالات ایسے بھی نہیں ہے کہ انتخابات معطل کئے جائے
سیاسی تجزیہ نگار شمس مومند کا کہنا ہے کہ اس وقت حالات پچھلے تین عام انتخابات والے ماحول سے زیاد خراب نہیں ہے اس لئے بدامنی کی وجہ سے انتخابات ملتوی نہیں کئے جا سکتے
کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابات نہ کرانے کی وجہ سے مسایل ہے اور انتخابات کو مسایل کا تغبیر سمجھتے ہے
پاکستانی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق، انتخابات کی کرانے سے سیاسی عدم استحکام، سیکیورٹی اور معاشی حل کئے جاسکتے ہیں
ان کے مطابق اگر انتخابات ہو جاتے ہے تو نئی انے والی حکومت امن و امان کے حوالے سے ایک جامع پالیسی مرتب کرسکتی ہے اور کئی سیاسی جماعتیں ملک میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرامد کی باتیں کرتا ہے، اگر ملک میں نیشنل ایکشن پلان کے سارے نکات پر پورا عم ہو جائے تو سیکیورٹی سے متعلق مسائل کا حل ممکن ہے اور اس جڑے دیگر مسائل پر بھی خاطر خواہ پیش رفت ہوسکتی ہے
انتخابات سے پہلے سیکیورٹی ادارے کی کارروائی
12 جنوری کو محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پشاور میں کارروائی کرتے ہوئے داعش کے 2 دہشت گرد گرفتار کرلیے، جو کہ سی ٹی ڈی کے مطابق سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ایمل ولی خان پر حملےکی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
سینئر سپرٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) آپریشنز سی ٹی ڈی نجم الحسنین لیاقت نے سی ٹی ڈی ہیڈکوارٹر پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں دہشگردی کی تربیت حاصل کرنے والے داعش کے 2 خودکش بمبار کو گرفتار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گرفتار دہشت گرد مولانا فضل الرحمٰن اور اے این پی کے ایمل ولی خان کو نشانہ بنانے والے تھے۔

حکومت کا موقف
نگران وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات و پارلیمانی امور مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مالی، انتظامی اورسکیورٹی ضروریات پوری کرنے کے آئینی طور پر پابند ہیں۔
11 جنوری کو الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سکیورٹی کے مسائل حقیقی ہیں، ہمیں ان کا ادراک ہے، انہیں بہتر کریں گے۔
دوسری جانب وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق وزارت داخلہ میں آئندہ عام انتخابات 2024 کے دوران مجموعی سکیورٹی کی مانیٹرنگ کے لئے کنٹرول روم قائم کردیا گیا۔ کنٹرول روم کے سربراہ وزارت داخلہ کے اعلی افسر ہوں گے۔
وزارت داخلہ سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق کنٹرول روم کے قیام کے حوالے سے الیکشن کمیشن، صوبائی حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تحریری طور پر آگاہ کردیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔

( خبر جاری ہے )

ملتی جلتی خبریں
Comments
Loading...

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. AcceptRead More